عظمیٰ نیوزسروس
سرینگر//جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائی کورٹ نے منگل کو کہا کہ کسی شخص کو محض اس کے بھائی یا والد کے عسکریت پسندی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا جبکہ کسی شخص کی اپنی سرگرمیاں پاسپورٹ کے اجراء کی بنیاد بننی چاہئیں۔جسٹس ایم اے چودھری کی بنچ نے محمد عامر ملک کی درخواست کی اجازت دیتے ہوئے جموں و کشمیر کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس، سی آئی ڈی کو ہدایت کی کہ وہ چار ہفتوں کے اندر اندر ملک کے والد اور بھائی کے طرز عمل یا سرگرمیوں سے متاثر ہوئے بغیر رپورٹ دوبارہ جمع کرائیں۔ عدالت نے پاسپورٹ افسر سے کہا کہ وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سی آئی ڈی کی رپورٹ پر ملک کے کیس پر غور کریں اور اس کے بعد دو ہفتوں کے اندر ان کے حق میں مناسب حکم صادر کریں۔شگن رام بن کے رہنے والے اور انجینئرنگ میں ڈپلومہ رکھنے والے ملک نے دعویٰ کیا کہ وہ کیریئر کے طور پر اچھی ملازمت کی تلاش میں بیرون ملک جانا چاہتا ہے۔ اس طرح اس نے 6ستمبر 2021کو “آن لائن” عمل کے ذریعے پاسپورٹ کے اجراء کے لیے درخواست دی تھی اور بتایاگیا تھا کہ اس کے کیس پر سی آئی ڈی اور پولیس کی تصدیق کے بعد کارروائی کی جائے گی۔اے ڈی جی پی سی آئی ڈی نے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا کہ ملک کے کردارکے حوالے سے پاسپورٹ کی تصدیق کی رپورٹ کی فیلڈ ایجنسیوں کے ذریعے تصدیق کی گئی تھی جس میں انکشاف ہوا تھا کہ اس کا بھائی حزب المجاہدین تنظیم کا عسکریت پسند تھا جو 2011میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک مقابلے کے دوران مارا گیا تھا اور اس کے والد کو ریکارڈ میں او جی ڈبلیوکے طور پر درج کیا گیا تھا۔عدالت نے کہا “جبکہ آئین کے آرٹیکل 21کے تحت ذاتی آزادی کے تحفظ کی ضمانت کسی شخص کو دستیاب ہے، لیکن مذکورہ حق کو کسی ایسے شخص کی طرف سے حق کے معاملے کے طور پر دعویٰ نہیں کیا جا سکتا جو ایک انتشار پسند ہو یا ہماری ریاست کی سلامتی اور سالمیت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والا شخص ہو‘‘۔عدالت نے مزید کہا’’یہ بالکل ان وجوہات کی بناء پر ہے کہ سیکشن 6(2) ذیلی دفعہ (a) سے (i) کی دفعات پاسپورٹ ایکٹ، 1967میں شامل کی گئی ہیں‘‘۔عدالت نے کہاکہ حکام کا پاسپورٹ کے اجراء کے لیے ملک کے معاملے کی سفارش نہ کرنے میں یقیناً جواز ہوگا اگر ان کے خلاف کوئی الزام یا کسی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے جسے ریاست کی سلامتی، خودمختاری اور سالمیت کے لیے نقصان دہ سرگرمیاں تصور کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے کہا ’’یہ درخواست گزار (ملک) کی سرگرمیاں ہونی چاہیے تھیں جو اس کے حق میں پاسپورٹ جاری کرنے کی درخواست کو اجازت دینے یا مسترد کرنے کی بنیاد بنتی تھیں‘‘۔عدالت نے کہا’’پاسپورٹ کے اجراء کے لیے درخواست گزار کے کیس کی سفارش نہ کرنے کی بنیاد کا درخواست گزار کی سرگرمیوں سے کوئی معقول تعلق یا گٹھ جوڑ نہیں ہے کیونکہ اسی طرح درخواست گزار کو کسی ایسی سرگرمی سے بھی نہیں جوڑتا جسے ریاست یا ملک کی سلامتی، خودمختاری اور سالمیت کے لیے نقصان دہ قرار دیا جا سکتا ہے ‘‘۔عدالت نے کہا کہ ملک کو ان کے بھائی کے مبینہ بداعمالیوں کی بنیاد پر آئین کے آرٹیکل 21کے تحت ان کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس، سی آئی ڈی کو ہدایت کی کہ وہ ملک کے بھائی اور اس کے والد کے طرز عمل یا سرگرمیوں سے متاثر ہوئے بغیر چار ہفتوں کے اندر ریجنل پاسپورٹ آفیسر کو رپورٹ دوبارہ جمع کرائیں۔ عدالت نے کہا کہ پاسپورٹ آفیسر اے ڈی جی پی کی رپورٹ پر ملک کے کیس پر غور کرے گا اور اس کے بعد دو ہفتوں کے اندر ان کے حق میں مناسب حکم جاری کرے گا۔
محبوبہ مفتی،بخاری اورسجاد لون کا عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر// پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ کا کسی فرد کو محض ملی ٹنسی سے تعلق ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ دینے سے انکار کرنے کے متعلق فیصلہ ایک احسن اقدام ہے۔انہوں نے کہا’’ پاسپورٹ دفاتر میں لاتعداد کیسز زیر التوا ہیں جو سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ سے کلیئرنس کے منتظر ہیں‘‘۔بتادیں کہ جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے منگل کو کہا کہ کسی شخص کو محض اس کے بھائی کے ملی ٹنسی سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔عدالت عالیہ کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے محبوبہ مفتی نے بدھ کو ‘ایکس’ پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا: ‘ عدالت عالیہ کا کسی فرد کو محض ملی ٹنسی سے تعلق ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ دینے سے انکار کرنے کے متعلق فیصلہ ایک اچھا اقدام ہے‘۔انہوں نے کہا’’ سال 2019 سے کس طرح جموں و کشمیر میں سفر کے بنیادی حق کو بھی ہتھیار بنایا جا رہا ہے‘‘۔ان کا پوسٹ میں کہنا تھا کہ پاسپورٹ دفاتر میں لاتعداد کیسز زیر التوا ہیں جو سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ سے کلیئرنس کے منتظر ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’ایسے افراد کو نہ صرف پاسپورٹ دینے سے انکار کیا جاتا ہے بلکہ صحافیوں، طلبا اور ملازمت کے متلاشی افراد کو بھی جو سرکاری ملازمتوں کے لیے ضروری شرائط پورا کرنے کے باوجود بھی صرف سی آئی ڈی کی جانب سے دی گئی منفی رپورٹ کی وجہ سے نوکریوں سے انکار کر دیا جاتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’متعلقہ ملی ٹنٹ کی حیثیت – چاہے وہ مردہ ہو یا زندہ – غیر متعلق معلوم ہوتی ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا’’بدقسمتی سے یہ پالیسی ایسے افراد تک بھی پھیلائی گئی ہے جن کا تعلق جماعت اسلامی کے ارکین سے دور دور تک ہے‘‘۔ادھر اپنی پارٹی کے سربراہ سید الطاف بخاری نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا کہ اگر کسی شخص کو پاسپورٹ اجرا کرنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کا بھائی ملی ٹنٹ رہا ہو اور اس کا باپ کسی جنگجو تنظیم کیلئے بطور اوور گرائونڈ ورکر رہ چکا ہے۔ جموں کشمیر ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ ایک کیس کی شنوائی کے دوران دئے ہیں۔ یہ کیس ایک انجینئرنگ گریجویٹ نوجوان نے دائر کیا ہے۔ وہ بیرون ملک ملازمت حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن اسے پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا گیا کیونکہ اس کا بھائی تقریباً 14 سال قبل ایک عسکریت پسند تھا۔الطاف بخاری نے عدالت کے اس فیصلے کے بعد اْن پاسپورٹ درخواستوں کو جلد از جلد نمٹایا جانا چاہیے، جو ایسے ہی وجوہات کی بنا پر زیر التوا ہیں۔انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیا ’’جموں کشمیر ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی شخص کو پاسپورٹ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا بھائی عسکریت پسند تھا اور اس کا والد ایک او جی ڈبلیو تھا۔ امید ہے کہ اب پولیس ویری فیکیشن عمل میں سْرعت آئے گی اور سرینگر پاسپورٹ آفس زیر التواء درخواستوں پر کارروائی کو تیز کرے گا‘‘۔ادھر پیپلز کانفرنس کے صدر اور ہندواڑہ کے ایم ایل اے سجاد لون نے عسکریت پسندوں کے ساتھ خاندانی تعلقات پر پاسپورٹ سے انکار کے خلاف ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔انہوں نے کہا’’ہماری درخواست عدالت میں ہے اور ہم ہزاروں متاثرین کی مدد کے لیے اسی طرح کے فیصلے میںتوسیع پر زور دیں گے‘‘۔لون نے اس بات پر زور دیا کہ یہ فیصلہ ایسے ہی امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے ہزاروں لوگوں کے لیے ایک طاقتور مثال قائم کرتا ہے۔انہوں نے کہا’’میں پر امید ہوں کہ ہماری پارٹی کی درخواست کے جواب میں جلد ہی ان خطوط پر ایک جامع حکم نامہ جاری کیا جائے گا‘‘۔