پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا دوسرا حصہ مکمل طور پر برباد ہو کر رہ گیا۔ ایک ماہ کے دوران کوئی کام کاج نہیں ہو سکا۔اِس سے ملک کا کتنا نقصان ہوا اس کا ابھی اندازہ کرنا مشکل ہے لیکن آنے والے دنوں میں ایک ایک کر کے اس کے اثرات سامنے آنے لگیں گے۔یہ سمجھ پانا مشکل ہے کہ پارلیمنٹ کی اس تعطل سے حزب اقتدار کو فائدہ ہوا یا حزبِ اختلاف کولیکن ایک بات تو طے ہے کہ کچھ وقتوں کے لئے بی جے پی کو جو حزب اقتدار کی بڑی پارٹی ہے ، شرمساری سے بچا لیا۔بی جے پی کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ یہ پارلیمنٹ میں کوئی بیان نہیں دیتی اور کبھی دیتی بھی ہے تو حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہے۔البتہ پارلیمنٹ کے باہر اس کے لیڈران جن میں وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ سر ِ فہرست ہیں جملے بازی،بیان بازی اور بھاشن بازی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔اُنہیں میں سے ایک بیان یہ ہے کہ این ڈی اے کے ہمارے ایم پیز اِس دفعہ پارلیمنٹ کے تعطل کے دنوں کا بھتہ نہیں لیں گے۔اِس سے ملک کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے کام کاج کو چلانے کے لئے وہ بیحد سنجیدہ ہیں اور لاپروا ہے تو اپوزیشن اور اس میں بھی خاص طور پر کانگریس۔عوام میں یہی پیغام میڈیا کے ذریعے بھی دیا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ میںبی جے پی تو ہمیشہ ہی ہر موضوع پر بحث و مباحثے کے لئے تیار ہے اور کانگریس اور حزبِ اختلاف کی دیگر پارٹیاں سرے سے بحث ہی کرنا نہیں چاہتیں اور ہنگامہ کرنا ہی ان کا مقصود و منہاج رہ گیا ہے۔کیا واقعی ایسا ہے؟ آئیے اس پر غور کرتے ہیں۔
تریپورہ اور شمال مشرقی ریاستوں میں حکومت تشکیل دینے تک تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھااور بی جے پی یہ سمجھ رہی تھی کہ سب کچھ اس کی مٹھی میں ہے لیکن یو پی کے گورکھپور اور پھولپور کے ضمنی انتخابات میں ہارنے کے بعد بی جے پی کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔پھولپورکو تو تھوڑی دیر کے لئے جانے دیجئے لیکن گورکھپور کے زخم کو بھول پانا بی جے پی کے لئے آسان نہیں۔یہ وہ سیٹ ہے جہاں سے ہندتوا کا چہرہ ۳۰؍ برسوں سے منتخب ہوتا رہا ۔گورکھپور کا مٹھ جس کے سربراہ آج بھی یوگی آدتیہ ناتھ ہیں ،وہ سپنے میں بھی نہیںسوچ سکتے تھے کہ اُن کے لوگ اُن کے ساتھ ایسا رویہ روا رکھیں گے اور بھاری ووٹوں سے انہیں شکست سے دوچار کریں گے لیکن مایا وتی اور اکھلیشکی ذرا سی حکمت عملی نے بی جے پی ہائی کمان کے ہوش اُڑا دئے اور آگے بھی انہیں جو دکھائی دے رہا ہے وہ کم خوفناک نہیں ہے ۔اسی لئے ٹی وی پرا ِس طرح کے مباحثے اب شروع ہو گئے ہیں کہ مودی جی کو ہرانے کے لئے ’’ناپاک‘‘ معاہدے وجود میں آرہے ہیںاور مایا وتی جی گیسٹ ہاؤس میں ہوئے اُن کے ساتھ بدسلوکی کو نظر انداز کر رہی ہیں جو برسوں پہلے ملائم سنگھ کے آدمیوں نے کی تھی۔ضمنی انتخابات کے بعد امیت شاہ نے راجیہ سبھا کی ایک فاضل سیٹ یوپی سے ضروربی جے پی کے نام کر لی تھی اور دانستاً مایا وتی کے امیدوار کو ہرانے میں کامیابی حاصل کر لی لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ اُسی طرح کی دھوکہ دہی والی حکمت عملی تھی جو اس سے پہلے کانگریس کے احمد پٹیل کو ہرانے کے لئے امیت شاہ نے گجرات میںاستعمال کی تھی۔ وہاں تو کامیاب نہیں ہوسکتے تھے البتہ یہاں یوپی میں کامیابی بتا کر مایاوتی اور اکھلیش کی جوڑی اور تفہیم کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے لیکن شکست کے باوجود بھی مایاوتی نے اکھلیش کا ساتھ دینے کا زوردار اعادہ کیا ۔اُدھر ممتا بنرجی بی جے پی کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں اور مختلف ہم خیال پارٹیوں سے رابطے میں ہیں۔تیلگو دیشم پارٹی بھی این ڈی سے الگ ہو گئی ہے اور ممتا بنرجی، چندر بابو نائیڈو سے بھی رابطے میں ہیں۔خاص بات تو یہ ہے کہ وہ سونیا گاندھی سے روزانہ گفتگو کرتی ہیں ۔اِن کے علاوہ کرناٹک میں کانگریس اچھی پوزیشن میں ہے اور یہ امید کی جارہی ہے کہ کانگریس پھر سے وہاں اقتدار میں آجائے گی۔دلتوں کے احتجاج نے بی جے پی کے لئے نئی مشکلات پیدا کر دی ہیں کیونکہ کرناٹک کے بعد ہونے والے مدھیہ پردیش اور راجستھان نیز چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات کے علاقے ہی دلتوں کے احتجاج سے زیادہ متاثر ہوئے اور وہاں درجن بھر کے قریب اموات بھی ہوئیں۔بی جے پی نے یہاں نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہے کہ یہ ریاستیں اُس کے ہاتھ سے جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس کے ہاتھ میں یہ ریاستیں آئیں گی وہ صرف اور صرف کانگریس ہوگی۔۔۔۔اور اُس کے فوراً بعد ہونے والے ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ اُس کے لئے کچھ آسان نہیں ہوں گے۔ اور تو اور جنوبی ہند میں جو اس کے دوست تھے اب اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں سوائے تمل ناڈو میں بر سر اقتدار ’اے آئی ڈی ایم کے ‘ کے جو کسی بھی صورت میں تمل ناڈو میں دوبارہ آنے والا نہیں ہے۔
یہی وہ تمام اسباب ہیں جو بی جے پی کے لئے پارلیمنٹ چلانے میں مانع ثابت ہوئے۔اگر پارلیمنٹ چلے گا تو اِن تمام موضوعات پر مباحثے ہوں گے لیکن بی جے پی یہ چاہتی ہی نہیں ہے کہ ایسا ہو۔اِس مقصد کے لئے اس نے ’اے آئی ڈی ایم کے‘ کو تیار کیا تاکہ اس کے ممبران پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا کرتے رہیں اور کارروائی ملتوی ہوتی رہے۔کاویری منیجمنٹ بورڈ کی تشکیل کی ذمہ داری مودی کی مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور عدالت عظمیٰ کے آرڈر کے حساب سے ۲۹؍مارچ ۲۰۱۸ء تک اسے بورڈ تشکیل دے دینا چاہئے تھا لیکن مودی حکومت نے جان بوجھ کر اسے التوا میں رکھا کیونکہ اس سے کرناٹک کے اسمبلی الیکشن پر اس کی ساکھ پر اثر پڑ سکتا تھا۔یعنی اپنی پارٹی کے مفاد کی خاطر اس نے تمل ناڈو کے مفاد کو گڑھے میں ڈال دیا اور ساتھ میں ’اے آئی ڈی ایم کے‘ کو احتجاج کے لئے تیار بھی کیا کیونکہ ٹی ڈی پی،وائی ایس آر کانگریس اور کانگریس آئی سمیت کئی پارٹیوں نے مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا تھا۔اب یہ لوک سبھا کے اسپیکر شریمتی سمترا مہاجن کے فرائض میں شامل ہو جاتا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کرائیں کیونکہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی پارٹیوں کے کُل ممبران کی تعداد ۵۰؍ سے زیادہ تھی لیکن آخری آخری دنوں تک شریمتی مہاجن نے ایسا نہیں کیا بلکہ ہر بار وہ یہ کہتی رہیں کہ ’ہاؤس آرڈر میں نہیں ہے‘ یعنی ہنگامہ اور شور شرابہ بہت ہے۔جب کہ کم سے کم ۵۰؍ممبروں کے کھڑے ہوجانے یا ہاتھ اُٹھا لینے سے بھی اسپیکر مطمئن ہو سکتی تھیں اور تحریک عدم اعتماد پیش ہو جاتی۔یعنی بجٹ سیشن کے دوسرے دور کا ۳۰؍دن ہنگامے کی نذر ہو گیا اور کچھی بھی کام نہیں ہو سکا اور شریمتی اسپیکر منہ تاکتی رہ گئیں ۔اُن کے اختیار میں تھا کہ ہنگامہ کرنے والے ممبروں کو کم سے کم اِس سیشن کے لئے معطل کر دیتیں یا سال ،۶؍ مہینے کے لئے انہیں باہر کا راستہ دکھا سکتی تھیںلیکن اُنہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا کیونکہ شاید وہ بھی نہیں چاہتی تھیں کہ پارلیمنٹ کی کارروائی چلے۔ ایک اور بھی مضحکہ خیزی جو حزبِ اقتدار نے کی وہ یہ کہ آخری دن پلے کارڈس لے کراِس کے ممبروں نے پارلیمنٹ کے باہری احاطے میں ٹھیک اُسی جگہ اُسی اندازمیں احتجاج کیا جہاں دودن پہلے حزبِ اختلاف نے احتجاج کیا تھا۔حکومت کا کام ہے پارلیمنٹ چلانا نہ کہ احتجاج کرنااور یہی بی جے پی کاجاہلانہ وصف ہے۔پتہ نہیں اسے ایسے مشورے کون دیتا ہے؟
وزیراعظم مودی حکومت یا بی جے پی ملک کے سامنے جوابدہ ہونا ہی نہیں چاہتی ۔وہ سمجھتی ہے کہ جو بھی کام وہ کر رہی ہے وہ صحیح ہے اور ملک کے’’ مفاد‘ ‘میں ہے۔در اصل وہ اپنے مفاد کو ملک کا مفاد سمجھتی ہے ۔رافیل سودے کو وہ افشا کرنا نہیں چاہتی،اس کا ماننا ہے کہ اس سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔اسی طرح دو دنوں پہلے ۴۱ء۲؍لاکھ کروڑ روپے بنکوں کے قرضہ جات اس حکومت نے معاف کئے اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ قرض داروں کے نام وہ افشا ء نہیں کرے گی۔ظاہر ہے کہ وہ کانگریس یا دوسری پارٹیوں کے لوگ نہیں ہوں گے ورنہ پہلی فرصت میں یہ حکومت نام ظاہر کر دیتی۔عجیب ہٹ دھرمی ہے جسے پورا ملک محسوس کر رہا ہے۔کوئی بھی عذر پیش کرنا ہو یہ سیدھا ملک کی سا لمیت کی بات کرنے لگتی ہے ،پھر اس کے بعد توکچھ بچتا ہی نہیں ہے اور مخالفین بغلیں جھانکنے لگتے ہیں!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883