فاروق شاہین،لنگیٹ
جنت کی فضائوں سے لبریز وادی کشمیر اب ٹیکنالوجی کے اس دور میں داخل ہوچکی ہے جہاں ترقی اور خوشحالی کی پررونق راہیں وادی کا مستقبل سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی خاطر منتظر ہیں ۔یہ ٹیکنالوجی کی ہی دین ہے کہ کشمیر اب براہ راست ہندوستان کی تمام ریاستوں کے ساتھ ٹرین سروس کے ذریعہ جڑ رہا ہے۔ پیر پنچال کی بلند ترین اور دشوار گزار پیاڑی سلسلوں کے بیچوں بیچ بہت ساری ٹنلوں کی تعمیر نئی ٹیکنالوجی ،انجینئرنگ اور ایجادات سے یہ سہولیت بہم ہونا ایک نئی شروعات کاپیش خیمہ ہے۔ ہوائی سروس سے ملک کے امیر لوگ کشمیر کے بے پناہ حسن سے تو لطف اندوز ہورے ہیں، لیکن عام انسان کی رسائی، وہ بھی اپنی کم آمدنی کے طفیل نہیں ہو پاتی ہے ۔ملک کے مختلف ریاستوں میں ایسے کتنے عام لوگ ہونگے ،جن کے دلوں میں کشمیر کی سیر کا شوق کلبلا رہا ہوگا اور اسی طرح جموں و کشمیر کے دور دراز علاقوں میں بودوباش کرنے والے کتنے غریب لوگ کم خرچ پر ملک کے ریاستوں کی سیر کرنا چاہتے ہوں گے،یہ ایک لمحہ فکریہ تھا۔
کشمیر اور جموں کے درمیان پہاڑوں کا جو یہ لامتناہی سلسلہ ہے ،وہ کشمیر کی ترقی میں قدیم زمانے سے ہی ایک رکاوٹ بنا ہوا ہے۔کیونکہ موسم سرما شروع ہوتے ہی سرینگر جموں شاہراہ ہمیشہ بند ہوتی رہی ہے۔پہاڑوں سے پسیاں گرنے سے اکثرسڑک میں رکاوٹیں پیدا ہوا کرتی تھیں اور کشمیر پورے ملک سے الگ تھلگ ہوکر رہ جاتا تھا۔اس تناظر میں 20فروری کو ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سرینگر سے سنگلدان تک پہلی الیکٹرک ریل کو جو ہری جھنڈی دکھائی ،اس سے جموں و کشمیر میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا،کیونکہ یہ ٹرین سروس اب براہ راست ملک کے ساتھ جڑنے والی ہے۔سنگلدان ریلوے سٹیشن سے بارہ مولہ تک ٹرین سروس کو 12بج کر 24منٹ پر وزیرِ اعظم نے افتتاح کیا۔اس کے علاوہ وزیر اعظم نے سنگلدان سےبارہمولہ تک پہلی برقی ٹرین کو بھی ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔20فروری منگل وار دوپہر جموں میں ویڈیو کانفریسنگ کے ذریعے افتتاح کے موقعے پر سنگلدان ریلوے سٹیشن میں عام لوگوں اور انتظامیہ کے علاوہ شمالی ریلوے اور ارکان انٹرنیشنل کے عہدہ دار موجود تھے ۔اس موقع پر لوگ بارش اور برفباری کے با وجود بانہال اور سنگلدان کے درمیان پہلی ریل دیکھنے کے لئے بانہال،کھڑی،سمبڑ اور سنگلدان کے ریلوے سٹیشنوں پر صبح سے ہی انتظار کررہے تھے۔یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہےکہ بانہال ،کھڑی،سمبڑ اور سنگلدان کا 48کلومیٹر کا سیکشن پیر پنچال کے دشوار گزار پیاڑی سلسلے میں واقع ہےاور ان علاقوں میں قریب 95فی صد ریلوے لائن زیرزمین ٹنلوں سے گزرکرادھمپور سے وادی پہنچائی گئی ہے ۔کشمیر کے اس ریلوے پروجیکٹ کو انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کا ایک شہکار مانا جاتا ہے۔اس ریل سروس سے کشمیر کے مختلف اضلاع کے ساتھ جموں کے کھڑی،،مہو،منگت،رامسو،اکڑال،پوگل پرستان،گول،سنگلدان اور گلاب گڑھ مہور کی تحصیلوں کے ہزاروں لوگ مستفید ہوں گے ۔پیر پنچال کے دشوار گزار پیاڑی سلسلوں میں بودوباش کرنے والے ہزاروں لوگ مہنگے داموں پر چھوٹی گاڑیوں سے جو تکلیف دہ جو سفر کرتے تھے ،اب انھیں سفر کے ان مشکل حالات سے نجات ملے گی ۔اب یہ لوگ رام بن اور بانہال پہنچ کر گاڑی پکڑنے کے بجائے ریل کے متبادل،محفوظ اور سستے سفر سے وادی کشمیر کے مختلف اضلاع تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ملک کے وزیر اعظم نریندرا مودی نے 32000کروڑ لاگت سے مختلف پروجیکٹوں کا افتتاح کیا ۔یہ پیسے جموں و کشمیر کو ترقی کے نئے ڈگر پر استوار کرنے کےلئےخرچ کئے جائیں گے۔
انقلابی قدم:
جموں و کشمیر میں جس وقت ریل سروس ملک سے جڑ جائے گی ،یہ ایک بھرپور تہذیب کا ملن ہوگا ۔اس ملن کے زبردست اور دوررس اثرات یہاں کے کلچراور ثقافت پر پڑیں گے۔یہاں کے رہن سہن زبان اورتمدن میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی، اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے تجارت پیشہ لوگ اپنے کاروبار کو چارچاند لگائیں گے ۔سیاحت کے شعبے میں ہمہ گیرترقی دیکھنے کو ملے گی ۔یہاں کے گھوڑے بھان،ہاوس بوٹ مالکان،صحت افزا مقامات پر بودوباش کرنے والے لوگوں کو روزگار ملے گا، وہ روزی روٹی کمانے کے لائق ہونگے ۔ریل سروس سے ملک کی ریاستوں سے براہ راست مال گاڑیاں کشمیر پہنچیں گی، جس سے بے شمار اشیاء کے دام سستے ہونے کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں ۔ملک کے اہم شہروں تک رسائی نہایت ہی آسان ہوگی اور گھر آنگن کا یہ سفر کافی سہانا ہوگا۔بڑے بڑے کاروباری شخصیات کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لیں گے ۔یہاں کے طالب علم ملک کے اہم اداروں میں داخلہ لے کر بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر کے قوم کی خدمت میں جُٹ جائیں گے ،جو کشمیر ملک سے کبھی الگ تھلگ پڑچکاتھا اب وہ دوری ختم ہوگی اور نیا انقلابی منظر نامہ ہماری نظروں کو طراوت اور فرحت فراہم کرے گا۔
کشمیر کی تاریخ میں ریل سروس کے ذریعے ملک سے رابطہ استوار ہونا اتنا بڑا انقلابی نوعیت کا قدم ہوگا،جس سے سوچ کر یہ باورکیا جاسکتا ہے کہ کشمیر اب ترقی کی اونچائیوں کی طرف بڑی تیزی سے گامزن ہوگا، جس کا بھرپور استفادہ ہماری نئی نسل لے سکتی ہے ۔پہاڑوں پر،جنگلوں میں اور دنیا کے ہنگاموں سے دور پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لوگ بھی اب خوشحالی کے خواب دیکھیں گے ۔یہ خبر اب ان کے ذہنوں میں سکون لائے گی اور ان کے چہروں پر خوشیوں کی لافانی کیفیات خوشحال زندگی کے آثار پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہونگے۔
(مصنف کشمیری اور اردو زبان کے محقق،نقاد اور شاعر ہیں)
[email protected]