اسد مرزا
امریکی صدر کے طور پر دوبارہ جیتنے کے بعد عالمی سطح پر یہی توقع کی جارہی ہے کہ زیادہ تر ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اسی نہج پر چلیں گے جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران اپنائی تھی۔ٹرمپ کی نظر میں جن عالمی رہنماؤں کو یا تو دوست یا دشمن کے طور پر دیکھا جائے گا، ان میں ہندوستان اور دیگر کئی ممالک کو وائٹ ہاؤس کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کی واپسی کو وزیر اعظم مودی کے لیے ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جن کے سابق امریکی صدر کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے برسوں میں ایک دوسرے کی عوامی سطح پر تعریف کی ہے اور ذاتی تعلقات استوار کیے ہیں۔ ہندوستان- امریکہ باہمی تعلقات کے مثبت رہنے کی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ مضبوط دو طرفہ تعلقات پر توجہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے مطابق ہوگی۔روس کے ساتھ امن کی بات چیت کے بارے میں ٹرمپ کا موقف وزیر اعظم مودی کو ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کی اجازت دے سکتا ہے، جو توانائی اور دفاع کے معاملے میں ہندوستان کا کلیدی شراکت دار ہے۔اس سے قبل، جو بائیڈن انتظامیہ نے نئی دہلی سے عدم اطمینان ظاہر کیا تھا جب مودی نے جولائی میں ماسکو میں پوٹن سے ملاقات کی تھی۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان،جوکہ مملکت کے حقیقی حکمران ہیں،وہ امریکہ کے ساتھ طویل عرصے سے انتظار کیے جانے والے سیکیورٹی معاہدے کے لیے کوششوں کو دوبارہ بحال کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ، جنہوں نے ابراہیم معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس نے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کیے تھے ،اس کے مطابق توقع ہے کہ اب امریکہ سعودی عرب کو اس معاہدے میں شامل کرنے کے لیے اس فریم ورک کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز کرے گا۔
اگر ٹرمپ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن معاہدہ کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ امریکہ کے لیے سعودی عرب کو اپنی سکیورٹی سپورٹ بڑھانے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اس سے سعودی عرب اپنی توجہ اقتصادی ترقی کی طرف مبذول کر سکے گا اور ایران سے ممکنہ خطرات سے متعلق خدشات کو کم کر سکے گا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے سبکدوش ہونے والے صدر جو بائیڈن کے ساتھ کشیدہ تعلقات رہے تھے لیکن توقع ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کے ساتھ دوبارہ پہلے والے تعلقات قائم کرسکیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ممکنہ طور پر اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کو تقویت دیں گے، بائیڈن کے برعکس، جس نے حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے تناظر میں فلسطینی شہریوں کے مصائب کے بارے میں خدشات پر کچھ فوجی امداد روک دی تھی۔ ٹرمپ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک بڑے علاقائی تنازعے کو جنم دینے کے خطرات کے باوجود، ایرانی پراکسیوں کے خلاف جنگ کو آگے بڑھانے اور فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرنے پر نیتن یاہو کے موقف سے زیادہ ہمدردی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔دوسری جانب روس کے صدر ولادیمیر پوتن ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کو مغرب میں تقسیم سے فائدہ اٹھانے اور یوکرین میں مزید فوائد حاصل کرنے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آنے والے امریکی صدر سے توقع ہے کہ وہ نیٹو کے اتحادیوں کے اتحاد میں تناؤ بڑھا سکتے ہیں اور اپنی ‘امریکہ فرسٹ’ پالیسی سے یوکرین کے لیے امداد کے مستقبل کو غیر یقینی بناسکتے ہیں۔ تاہم، اس کے غیر متوقع ہونے نے کریملن میں خدشات کو جنم دیا ہے کہ ٹرمپ، مختصر مدت میں، پوٹن پر ایک تصفیہ پر مجبور کرنے کے لیے تنازع کو بڑھا سکتے ہیں، جس کے ممکنہ تباہ کن نتائج ہوں گے، بشمول جوہری تصادم کے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ٹرمپ کی صدارت میں تعلقات میں بہتری کے منتظر ہو سکتے ہیں۔ اردگان اور ٹرمپ نے دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہیں، اکثر فون پر بات چیت کرتے ہیں، اردگان نے انہیں “میرا دوست” بھی کہا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کے برعکس، ٹرمپ کی واپسی اردگان کو واشنگٹن تک براہ راست رسائی فراہم کر سکتی ہے۔ٹرمپ کا جنگ مخالف موقف اور تجارت پر توجہ دینا اردگان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، لیکن اسرائیل پر ان کی تنقید تناؤ پیدا کر سکتی ہے۔ مزید برآں، چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ترکی کے حالیہ اقدامات امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے میں چیلنجز پیش کر سکتے ہیں۔
اس سب کے برعکس ایران نے اب تک ٹرمپ کی واپسی کے اثرات کو کم اہمیت دی ہے،کیونکہ تہران کو امید تھی کہ وہ پابندیوں سے متاثرہ اس کی معیشت کو کم کر سکتے ہیں۔اسرائیل کے ایک مضبوط حامی، ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران ایران پر “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کا اطلاق کیاتھا۔ وہ ایران کو پہلے سے عائد کردہ امریکی پابندیوں کو سخت کر کے مزید تنہا کرسکتے ہیں۔ تاہم، ٹرمپ کو ایک بدلے ہوئے خطے کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ ایران نے حال ہی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے ہیں،ماضی میں دونوں ممالک نے “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کے امریکی نقطۂ نظر کی حمایت کی تھی۔ٹرمپ کی جیت چین کے صدر شی زی پنگ کے لیے ایک مشکل وقت میں آئی ہے ، کیونکہ اپنی پہلی صدارت کے دوران بھی ٹرمپ نے چین سے برآمد کی جانے والی اشیاء پر ٹیرف بڑھانے کی دھمکی دی تھی کیونکہ دوطرفہ تجارت میں چین کی برآمدات امریکی برآمدات سے کہیں زیادہ رہی ہیں۔ٹرمپ کی جیت نے جاپان کے رہنما پر نئے دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ٹرمپ نے اکثر امریکہ کے ساتھ جاپان کے تجارتی سرپلس پر تنقید کی ہے اور جاپان پر زور دیا ہے کہ وہ تقریباً 55,000 فوجیوں کی امریکی فوجی موجودگی کے لیے مزید ادائیگی کرے۔ جاپان نے پہلے ایسے مطالبات کی مزاحمت کی تھی، لیکن موجودہ معاہدہ 2026 میں ختم ہونے والا ہے۔ مزید برآں، جاپان کو چین کو سیمی کنڈیکٹر چپ بنانے والے آلات کی برآمدات پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جسے امریکہ محدود کرنا چاہتا ہے۔
ٹرمپ کی دوبارہ واپسی اس کے ہم سایہ ملک میکسیکو کے لیے باعثِ تشویش ہوسکتی ہے کیونکہ اپنی پہلی صدارت کے دوران بھی ٹرمپ کا الزام تھا کہ میکسیکو سے بڑی تعداد میں غیر قانونی مہاجرین امریکہ پہنچتے ہیں،جسے وہ بند کرنا چاہتے ہیں۔ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کا 2026میں دوبارہ جائزہ لیا جائے گا اور امید یہی ہے کہ ٹرمپ اس معاہدے کو ختم کرسکتے ہیں۔اگر امریکہ کے یوروپی اتحادیوں بالخصوص برطانیہ کا ذکر کریں تو امریکہ اور برطانیہ میں خوشگوار تعلقات قائم رہنے کے بہت کم امکانات ہیں، کیونکہ اب ایک بڑے لمبے عرصے کے بعد برطانیہ میں لیبر پارٹی اقتدار میں آئی ہے اور اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر ٹرمپ کی پالیسیوں اور ان کی بحیثیت ایک سیاستداں کافی تنقید کرچکے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کو پہلے ہی ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے، جو انہیں اپنے یورپی ساتھیوں کے مقابلے میں قابل قدر تجربہ فراہم کرتا ہے۔ درحقیقت، ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران دونوں رہنماؤں نے ایفل ٹاور پر ملاقات کی تھی اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ٹرمپ کی واپسی سے میکرون کے ٹریڈ مارک کو اپنی معیشتوں کے درمیان گہرے انضمام کے ذریعے یورپی یونین کو تقویت دینے کے لیے مزید تحریک بھی مل سکتی ہے۔ آپٹکس اور زیادہ سے زیادہ یورپی لیوریج کے امکانات کے باوجود فرانس پر اگر امریکہ کا اقتصادی دباؤ بڑھا تو اس کا منفی اثر تعلقات پر ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اٹلی کی وزیر اعظم جورجیا میلونی کے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے نزدیکی ایلون مسک کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں اور موجودہ حالات میں میلونی خود کو نیٹو ، یوروپی یونین اور وہائٹ ہاؤس کے درمیان ایک مضبوط رابطے کے طور پر پیش کرسکتی ہیں۔ مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے شخص ہیں جو کہ عملاً عام سیاست دانوں کے برخلاف ایسے فیصلے لیتے ہیں جو کہ کوئی بھی عام سیاست داں لینے میں ہچکچاہٹ ظاہر کرسکتا ہے، اس لیے آئندہ چار سالوں میں مختلف ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے بارے میں کوئی بھی رائے ابھی وثوق سے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)