یو این آئی
بیجنگ //چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینیوں کو غزہ سے جبری بیدخل کرکے کسی دوسرے ملک بسانے کے منصوبے کو ناقبول قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ چین کی وزارت خارجہ کی معمول کی پریس بریفنگ کے دوران صحافی نے امریکی صدر کی غزہ سے متعلق نئی پالیسی کے بارے میں پوچھا۔جس پر چینی ترجمان گو جیاکون نے دوٹوک انداز میں کہا کہ غزہ صرف اور صرف فلسطینیوں کا ہے۔ یہ ان کی آبائی سرزمین ہے۔چینی ترجمان نے مزید کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ جبری منتقلی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کو فلسطینیوں، حماس، عرب ممالک، اقوام متحدہ اور دیگر ممالک بھی مسترد کرچکے ہیں۔ادھر فرانسیسی صدر امانوئیل میکرون نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق منصوبوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 20 لاکھ لوگوں سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں۔انھوں نے کہا فلسطینیوں اور ان کے عرب پڑوسیوں کی عزت و احترام کا خیال کیا جائے، یہ ریئل اسٹیٹ آپریشن نہیں بلکہ سیاسی آپریشن ہونا چاہیے۔ فرانس کے صدر میکرون نے غزہ میں اسرائیل کی جنگ پر بھی تنقید کی، اور کہا کہ میں نے ہمیشہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے اپنے اختلاف کا اعادہ کیا ہے، اور کہا تھا کہ سویلینز کو نشانہ بنانے والا اتنا بڑا آپریشن درست نہیں ہے۔میکرون نے سی این این کو انٹرویو میں، اردن اور مصر دونوں کی جانب سے غزہ کے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو قبول نہ کرنے کی خواہش او فلسطینیوں کی اپنے آبائی علاقوں میں رہنے کی خواہش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ کی تعمیر نو کے لیے کسی بھی ’’مؤثر‘‘ اقدام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ لوگوں یا ممالک کے احترام میں کمی کریں۔‘ادھر سعودی عرب کی وزراء کونسل نے فلسطینی عوام کی بے دخلی سے متعلق انتہا پسند اسرائیلی بیانات کو سختی سے مسترد کردیا۔ریاض میں ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی صدارت میں کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا۔اس موقع پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب کی حکومتی پالیسی پر زور دیتے ہوئے دو ریاستی حل کو خطے کے مستقل امن کی بنیاد قرار دیا گیا۔
قیدیوں کے تبادلے میں التوا ،اسرائیل بذات خود ذمہ دار : حماس
یو این آئی
غزہ// حماس نے اعلان کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے پرعزم ہے، لیکن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہنے والی تل ابیب حکومت، کسی بھی تاخیر کی ذمہ دار ہے۔دوسری جانب حماس کی طرف سے “تعمیر نو کے بہانے فلسطینی عوام کو غزہ سے بے دخل کرنے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کو” مسترد کر دیا گیا ہے۔بیان میں ٹرمپ کے بیانات کو “فلسطینی دعوے کو ختم کرنے اور فلسطینیوں کو ان کے مستقل قومی حقوق سے محروم کرنے کے مقصد سے نسل پرستانہ اور نسلی تطہیر کا مطالبہ” قرار دیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ”غزہ سے ہمارے لوگوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو گا۔ فلسطینی عوام کو جلاوطن کرنے کے منصوبے کا فلسطینی، عرب اور عالم اسلام کے متحد موقف کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔”بیان میں کہا گیا ہے کہ “غزہ میں ہماری عظیم قوم بمباری اور جارحیت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے اور یہ اپنی ہی سرزمین پرقائم و دائم رہے گی۔ انہیں بے گھر کرنے اور زبردستی جلاوطن کرنے کے تمام منصوبے ناکام ہوں گے۔”غزہ کے عوام کی نقل مکانی کے بارے میں بیانات کے بارے میں حماس نے کہا کہ قابض اسرائیل حملوں اور قتل عام سے کامیاب نہ ہونے والے اپنے گندے عزائم کو تخریب کاری اور نقل مکانی کے منصوبوں سے بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر کاربند ہے، “یہ قابض اسرائیل ہی ہے جس نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور یہی پیچیدگیوں اور تاخیر کا ذمہ دار ہے۔”