ایس معشوق احمد
یوں تو ہمیں کبھی کسی سوال کا منطقی جواب دینا نہ آیا لیکن کبھی کبھار کوئی سوالی جواب کی تلاش میں ہمارا در کھٹکھٹائے تو ہم اس کو نراش نہیں کرتے۔کل کی بات ہے ایک صاحب جھٹ سے آئے اور جھٹ پٹ جواب کے متلاشی ہوئے کہ ٹانگ اڑانے سے کیا مراد ہے۔ہم نے سوال پر غور کئے بغیر جواب دینے کی کوشش کی کہ ٹانگ پیدل چلنے کے لئے بنی ہے جب کوئی بندہ پیدل چلنے کے بجائے ہوا میں اڑنے لگ جائے تو اس صورت حال کو ٹانگ اُڑانا کہتے ہیں۔مرزا ہمارے اس بچکانہ جواب سے بپھر گئے۔فرمانے لگے کم عقل یہ ٹانگ اَڑانا ہے اُڑانا نہیں۔ٹانگ کے پر تھوڑی لگے ہیں کہ ٹانگ اُڑ جائے گی۔جو ٹانگ اڑاتا ہے اس کے ذہن کو پر لگے ہوتے ہیں جب ہی دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ جب کوئی فرد زمین پر چلنے کے بجائے ہوا میں اُڑنے لگ جائے ، دوسروں کی کامیابی پر حسد سے جل بھن جائے، دوسروں کی کامرانی کو دیکھ کسی کینہ پرور کا سینہ پھٹنے کو آجائے اور وہ ان کے معاملات میں بے ضرورت دخل دینا شروع کردے تو سمجھ جاؤ وہ اپنی ٹانگ اَڑا رہا ہے۔ہم مرزا کے جواب سے مطمئین ہوئے اور سوچ بچار کرنے لگے کہ گاڑیوں کی بدولت ہم اب ٹانگوں سے پیدل سفر طے نہیں کرتے ۔جب کسی چیز سے وہ کام نہ لیا جائے جس کے لئے وہ بنی ہے تو اس کو دوسروں کاموں میں الجھایا جاتا ہے۔ ٹانگ چلنے کے لئے بنی ہے تاکہ ہم منزل مقصود تک بحفاظت پہنچ جائیں لیکن ہم نے اس سے چلنے کا کام نہ لیا بلکہ دوسروں کے معاملات میں اڑانی شروع کردی۔مرزا کہتے ہیں کہ میاں پروردگار نے دو ٹانگیں دی ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنا کام چھوڑ کر ہمہ وقت دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑاتے رہو۔
پچھلے دنوں ایک شہزادے نے حرام زادوں کی سی حرکتیں کرنی شروع کردیں۔اپنا کام چھوڑ کر ہمارے کام میں ٹانگ اڑائی۔ ہم نے مرزا سے شکایت کردی۔ مرزا کہنے لگے میاں یہاں ہر فرد کو دوسرے فرد سے شکایت ہے۔خدا کے بندے پر لاکھوں احسانات ہیں پھر بھی بندہ خدا سے شکایت کرتا ہے۔ہم نے مرزا کی ہاں میں ہاں ملائی کہ اس کے سوا چارہ بھی نہیں تھا۔ہمیں بھی تو یار دوستوں سے شکایت ہے اور یار لوگ ہم سے شکایت کرتے ہیں۔ معشوق کو حسیناؤں سے شکایت ہے کہ انہوں نے معشوق کے سوا دوسروں کو معشوق بنائےرکھا ،تخلیق کار کو تنقید نگار سے شکایت ہے کہ یہ میری تعریف نہیں کرتا اور تنقید نگار کو تخلیق کار سے شکایت ہے کہ یہ میرے معیار کا نہیں لکھتا، بیوی کو شوہر سے شکایت ہے اور شوہر بیوی سے روٹھا ہے، بھائی کو بھائی سے شکایت ہے کہ اس میں بھائی چارہ نہیں، والدین کو اولاد سے شکایت ہے کہ نافرمان ہے ، رعایا کو بادشاہ وقت سے شکایت ہے کہ ہماری طرف توجہ نہیں کرتا، نوکر کو مالک سے شکایت ہے کہ وقت پر تنخواہ نہیں دیتا اور مالک کو نوکر سے شکایت کہ کام چور ہے۔ مرزا کہتے ہیں جہاں شکایتوں کا دفتر کھلا ہو وہاں دوسروں کے معاملے میں ٹانگ اڑانا کار ثواب مانا جاتا ہے۔
شکایت سے یاد آیا پچھلے دنوں ایک نیک بخت نے ہم سے شکایت کی کہ آپ کا لہجہ ٹھیک نہیں ہے۔ مرزا جی ان کی باتیں سن رہے تھے کہنے لگے انہوں نے بجا فرمایا ہے اپنا لہجہ درست کرو ۔بات ایسے کرو کہ لگے خوشامد کررہے ہو تاکہ دوسروں کے دل جیت سکو۔دوسروں کے دل جیتنے ہیں تو جھوٹی تعریفوں سے کارآمد کوئی ہتھیار نہیں۔ معمولی شعر سنو تو واہ واہ کی صدا بلند کرو ،کوئی بکواس بھی کریں تو اس کو ادبی خطاب سے نوازو۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو اپنے کام سے کام رکھو دوسروں کے معاملے میں ٹانگ مت اڑاؤ۔بعض دفعہ ٹانگ اڑانے سے ٹانگ کٹ بھی سکتی ہے ۔انسان کی ایک ٹانگ کٹ جائے تو وہ لنگرا کہلاتا ہے۔ لنگڑا بس آم ہی میٹھا ہے انسان نہیں ۔اس لئے میاں بہتر یہی ہے کہ دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے سے ایسے ہی پرہیز کرو جیسے باؤلا کتا پانی سے دور بھاگے ہے۔
صاحبو!کوئی آپ کے معاملات میں بے جا دخل دے تو غصہ کرنے یا پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ بعض اپنی عادت سے مجبور جب کچھ نہیں کرتے تو بیٹھے بیٹھے دوسروں کے معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہیں تاکہ ٹانگ حرکت میں رہے۔ایسے افراد کو بعض دفعہ ایسے تلوار بازوں سے سامنا ہوتا ہے جو ان کی اڑائی ٹانگ کو لفظوں کی تیز دھار تلوار سے کاٹ ڈالتے ہیں۔ مشہور شاعر راحت اندوری کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا۔ایک مشاعرے میں کسی نے انکے کے معاملے میں ٹانگ اڑائی تو راحت نے اس بدتمیز شخص کی ٹانگ آری سے نہیں کاٹی بلکہ لفظوں کی تلوار سے ایسا وار کیا کہ وہ اپاہج ہوگیا۔ راحت کا تاریخی جواب آپ کو یاد ہوگا۔میاں اس مقام تک پہنچنے میں مجھے تیس سال لگ گئے میں اس تیس سالہ محنت کو کیوں پانچ منٹ میں ضائع کروں۔ ہمارے آس پاس بھی ایسے افراد موجود ہیں جو بغیر کسی وجہ ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہیں۔پہلوان بن کر ان سے لڑنے کی ضرورت نہیں اور نہ انہیں ٹنگڑی مار کے چت کردینے کی حاجت ہے۔ کیچڑ میں اپنے پاؤں پھنسانا داناؤں کا کام نہیں اور نہ دوسروں کے معاملے میں دخل دینا عقل مندوں کا وطیرہ ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ جو افراد ٹانگ اڑانے کی عادت رکھتے ہیں کبھی ان کی ٹانگ پھنس گئی تو ٹانگ کاٹنے کے سوا چارہ نہیں بچتا۔ایک بار جس کی ٹانگ کٹ گئی دوبارہ وہ ٹانگ اڑانے کے قابل نہیں رہتا۔ اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ اپنی ٹانگ کی حفاظت کی جائے اور دوسروں کے معاملے میں نہ اڑائی جائے۔
���
موبائل نمبر؛ 8493981240