گذشتہ دِنوں ملک کی مختلف ریاستوں میں چار لوک سبھا اور دس اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات عمل میں آئے جن میں سے بھاجپا صرف ایک لوک سبھا سیٹ حاصل کرسکی ہے اور دس اسمبلی سٹیوں میں سے صرف ایک اسمبلی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ انتخابات کسی ایک ریاست میں نہیں بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں عمل میں آئے ہیں۔ اس لئے ان کے نتائج کے مقامی یا ایک ریاستی رُحجان کا بلاشبہ قرارنہیں دیا جاسکتاہے بلکہ انہیں ملک کے مجموعی رُحجان کے طورپر دیکھا جاسکتاہے۔ ان انتخابی نتائج سے بلاشبہ بھاجپا کے غرور اور تکبر کو زبردست جھٹکا دیاہے جسے ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان انتخابات نے بھاجپا کے صدر اور نریندرمودی کے دست راست امیت شاہ کے اس دعویٰ کو خاک میں ملا کر ملیامیٹ کردیاہے کہ بھاجپا نہ صرف 2019میں دوبارہ کامیابی حاصل کرے گی بلکہ پچاس سال تک ہندوستان کے راج سنگھاسن پر قابض رہے گی۔ پچاس سال تو دور کی بات ہے، اب توبھاجپا کو 2019 کے سلسلہ میںلالے پڑ گئے ہیں اور اُن کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ہیں۔ ان انتخابی نتائج سے ایک بار پھر ظاہر ہوگیاہے کہ نریندرمودی کی لچھے دار، محاورہ باز اور لفاظی سے پُر تقاریر کازمانہ لدگیاہے اور عوام اس فرقہ پرستانہ اقتدار سے خلاصی حاصل کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔
خصوصی طورپر بھاجپا سے بیزاری کاعمل اُترپردیش میں دیکھنے میں آیاہے ،جس صوبے کی لوک سبھا میں 80سیٹیں ہیں اور جس میں سے 1914کے لوک سبھا انتخاب میں بھاجپا نے 73سیٹیں حاصل کی تھیں۔ ابھی اُترپردیش کے وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی لوک سبھا سیٹ کے ضمنی انتخاب کے نتیجہ کا صدمہ رفو نہیںہواتھا، ابھی پھول پور کے ضمنی انتخاب کا غم بھاجپا کو ستا ہی رہاتھا جہاں اُترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ موریہ کی خالی لوک سبھا سیٹ پر بھاجپا کو شکست فاش ملی تھی کہ اب اُسے مغربی اُترپردیش کی کیرانا سیٹ جوکہ مظفر پور ضلع میںواقع ہے، پر کاری ضرب سہناپڑی ہے۔جہاں سے اس نے قبل ازیں فرقہ وارانہ فضاء پیدا کرکے اور ہندو مسلم فسادات کروا کر یہ سیٹ لاکھوں ووٹوں سے2014میں جیتی تھی۔ اب اُس کا شاطرانہ کھیل بھانپ کر اس حلقہ انتخاب سے ایک مسلم خاتون کو فرقہ وارانہ یک جہتی قائم کرکے بھاری اکثریت سے کامیاب کیا گیاہے۔ یہ کامیابی اس وجہ سے بھی قابل ذکر ہے کہ اُترپردیش کی آبادی میں جہاںمسلم اقلیت کی آبادی کا حصہ بیس فیصدی ہے اور لوک سبھا کی 80سیٹیں ہیں، وہاں سے ایک بھی مسلم لوک سبھا کا ممبر نہیں ہے۔ کیرانا کے انتخاب نے بلاشک و شبہ بھاجپا کے منہ پر ایک کرارا تھپڑرسید کیا ہے جوکہ قابل سراہنا امر واقع ہے۔
وزیر اعظم نریندرمودی کی لفاظی ، محاورہ بازی اور فقرہ بازی کا اثر ختم ہونے کا رُحجان گجرات کے اسمبلی انتخابات میں ہی ظاہر ہوگیاتھا، جہاں تمام مرکزی اور ریاستی اقتدار کو بروئے کار لانے، نریندرمودی کی طرف سے گجراتی وزیراعظم ہونے کی دہائی دینے، زبردست فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے باوجود اگرچہ بھاجپا معمولی اکثریت سے اپنا اقتدار بچاسکی لیکن اُس کے وقار کا گراف بتدریج گرنا شرو ع ہوگیا۔ پنجاب میں بھاجپا اور اُ س کے اتحادی اکالی دل کو ذِلت آمیز شکست کا سامنا کر ناپڑا۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، بہار اور دوسری کئی ریاستوں کے لوک سبھا کی سیٹوں کے انتخاب میں اُسے مات کھانی پڑی لیکن گوا اور مشرقی ہندوستان کی دو ریاستوں ہیراپھیری کے ذریعہ گو اس نے کامیابی کے مصنوعی شادیانے بجائے لیکن کرناٹک میں اُس کے اپنے اختیار کردہ سازشی حربوں کو زِیرکارلاکر کانگریس نے اُسے شکست فاش دے دی اور اُسے کرناٹک سے بے نیل مرام واپس آناپڑا۔ البتہ کرناٹک کی مثال نے بھاجپا کی اپوزیشن پارٹیوں نے سبق حاصل کرکے بنگلورو میں اُس یک جہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا کہ بھاجپا کے ہوش ٹھکانے آگئے اور اُسی اتحاد کے مظاہرہ کا نتیجہ ہے کہ بھاجپا کو حالیہ ضمنی انتخابات میں ذلیل و رسُوا ہوناپڑا ہے اور بھاجپا کے خلاف یہ عوامی رُحجان رُکتا دکھائی نہیں دیتا۔
بھاجپا ئی لیڈر بھاجپا کے خلاف اس عوامی رُحجان کے لئے خواہ کچھ بھی دلائل دیں اور وجوہات بیان کریں لیکن اصل وجہ واضح ہے کہ عوام نے کانگرس کی بدعنوانیوں، گھپلوں، گھوٹالوں، رشوت اور بھرشٹاچار کے خلاف نریندرمودی اور بھاجپا لیڈروں کی تقاریر کانگرسی دورِ حکومت میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے کاری، بد انتظامی سے نالاں ہوکر نریندرمودی اوربھاجپا لیڈروں کی لگی چپڑی محاورہ بازیوں ، تقریربازیوں میں پھنس کر اُنہیں ووٹ دیاتھا لیکن بھاجپا کے اقتدار کو چار برس بیت چکے ہیںپھر بھی حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتر ہوگئے ہیں، اصلاح احوال کے لئے کوئی انسدادی تدبیر اختیار نہیں کی گئی ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ احتساب قانون جو عوامی ایجی ٹیشنوں کے دبائو کے تحت کانگریس کی منموہن سنگھ سرکار نے منظور کیاتھا۔،اُس پر عملدرآمد نہیںہوسکا۔ بے کاری، مہنگائی اور معاشی بدحالی مزید گہرائیوں میںچلی گئی ہے۔ مزدور، کسان، سرکاری ملازم، درمیانہ طبقہ کے لوگ شہری آزادیوں کے دِلدادہ انسانی حقوق کے طالب سب سڑکوں اور بازاروںمیں مظاہروں پر مجبور ہوگئے ہیں۔بھاجپا کے لیڈر اور کارُکن بے شک اپنی چار سالہ ناکارکردیوں کو کارکردگیوں کاظاہر کرنے کے ڈھنڈرہ پیٹتے رہیں لیکن عوام کی زبوںحالی، مشکلات اور مصائب ان کھوکھلے دعوؤں کے متضاد ہی قصہ بیان کرتے ہیں اور حالیہ انتخابی نتائج انہی کا نتیجہ ہیں۔ خصوصی طورپر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوام پر جو آستیں ڈھائی ہیں، اُس سے لوگ الامان الامان پکار اُٹھے ہیں۔ نریندرمودی کا چمکتا ہو اہندوستان اُسی طرح چمکدار ہے جیسا کہ اٹل بہاری واجپائی کے دور کے آخرمیں لال کرشن ایڈوانی کو چمکتا ہوا ہندوستان نظرآیا تھا لیکن عوام بھاجپائی لیڈروں کی چمک دمک کے باوجود حقیقت حال کو سمجھ چکے تھے اور اُنہوں نے واجپائی، ایڈوانی کمپنی کی بجائے کانگریس کی فریب کارانہ محاورہ بازی میںپھنس کر منموہن سنگھ اینڈ کمپنی کو راج تاج سونپ دیا تھا،اس کی اندرونی لگام سونیا گاندھی کے ہاتھ میںتھی۔ ہمیں تو نریندرمودی کے متعلق آثار اُسی قسم کے دکھائی دیتے ہیں۔ آگے کی خدا جانے۔
نریندرمودی امیت شاہ اینڈ کمپنی کے زوال اور اُن کے خلاف عوامی رُحجان تو قابل صدمسرت ہے کیونکہ اِس سے عوام کو نہ صرف لوٹ کھسوٹ کرنے والے عوام دُشمن اور جمہوریت کش گروہ سے نجات ملے گی بلکہ عوام کو راحت کی سانس نصیب ہوگی ۔ قابل ذکر ہے کہ اگرچہ ترقی، تعمیر، خوشحالی اور فارغ البالی کا بھاجپائی مفروضہ عوام کے ذہنوں سے مفقود ہوچکاہے لیکن فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور مختلف فرقوں کودست و گریباں کرنے کا آزمودہ ہتھیار اُن کے پاس ابھی بھی موجود ہے۔ بے شک اپنے اقتدار میں بھی اُنہوںنے اسے زیر کار لایاہے اور بھاجپا کے کئی لیڈر اس قسم کے فرقہ وارانہ بیانات دیتے رہے ہیں اور اشتعال انگیز تقاریر کرتے رہے ہیںجن سے ملک میں فرقہ وارانہ فضاء نہ صرف مکدر ہوئی بلکہ کئی مقامات پر اُس نے اقلیت مخالف تصادمات کی شکل میں اختیار کی ہے۔اِس لئے خطرہ اور خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں اپنے اقتدار کی مدت کو بڑھانے کے لئے بھاجپا اسی ہتھیار کو زیر کار نہ لائے۔ بعض سیاسی مبصرین کا اندازہ ہے کہ ایودھیا اور اس قسم کے دیگر مسائل اُبھار کر بھاجپا اپنے اقتدار کو مزید توسیع دینے کی کوشش کرسکتی ہے۔ اِس لئے تمام محبِ وطن قوتوں کو اس سلسلہ میں خبردار ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع کی مناسبت سے یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ بھاجپا کے اقتدار کو ختم کرنے کے لئے کانگریس سمیت جواتحاد وجود میں آرہاہے، وہ بھی اُن لٹیرے حکمران طبقوں سامراجیوں ، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈ لارڈوں کانمائندہ ہے۔ اِس لئے بھاجپا کے چنگل سے نکل کر لوگ دوسرے گرگوں کے جبڑے میں پھنسنے کی طرف جارہے ہیں۔ پارلیمانی سیاسیات کے ان کھلاڑیوں نے بار ہا عوام کو باری باری دھوکہ دے کر اپنا اُلو سیدھا کیاہے اور دیش کو ڈس لیا۔ اب کی بار بھی سیاسی منظر نامہ کچھ ایسا ہی رُخ اختیار کر تاہوا دکھائی دیتاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمانی بھول بھلیوں سے نجات حاصل کرکے سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کے استحصال نظام سے نجات حاصل کرکے انقلابی جدوجہدوں کے ذریعہ عوامی جمہوری انقلاب کے ذریعہ لوٹ کھسوٹ کا نظام ختم کرکے محنت کشوں کا اقتدار قائم کیا جائے۔ وگرنہ یہ شعر صادق آئے گا ؎
اِک گجر بجنے سے دھوکہ کھاگئے
پھر بھیانک تیرگی میں آگئے
اِس موقع پر ایک خصوصی امر ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کثیر المذاہب، کثیر القومی، کثیر لسانی ملک ہے۔ اس ملک میں مختلف مذاہب، مختلف قومتیوں ، مختلف زبانوں ، مختلف تہذیب و تمدن، مختلف النوع بودوبوش رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ اس ملک میں یک رنگی نہیں چل سکتی ،نہ ہی ایک دوسرے پر غلبہ کی سیاست کارگر ہوسکتی ہے۔ صرف ہندی، ہندو اور ہندوستان کا نعرہ ملک کی یک جہتی،اتحاد اور یگانگت کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ اس قسم کے نعرے چاہے فرقہ پرستی کے ہر لباس میں بلند کئے جائیں یا سیکولر ازم کے لبادہ میں زہر گھاتک ہیںجو ملک کو یکجا رکھنے کا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتے، بلکہ حصے بخرے کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔ انتخابی پارٹیاں محض ووٹ حاصل کرنے کے لئے مذہب، ذات واد، علاقہ پرستی کا پرچار کرکے اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرنے کے درپے ہیں۔ محنت کشوں کو مذہب ، ذات برادری، علاقہ پرستی سے بلند ہو کر لوٹ کھسوٹ کے نظام کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے۔ عوام کو کوتاہ نظر سیاستدانوں کے پھیلائے ہوئے جال سے بچنے کی ضرورت ہے ؎
ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دِل کی رفیق
یہی رہا ہے اَزل سے قلندروں کا طریق