2014ءسے قبل بھی ملک میں کئی بار پارلیمانی انتخابات ہوئے لیکن جس مستعدی ، چالاکی اور شدت سے’’ اب کی بارمودی سرکار ‘‘ سلوگن کو حقیقت کا روپ دھارن کر نے کے لئے سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری ایجنسیوں کا بے محابہ استعمال مودی اینڈ کمپنی نے کیا ہے اور اب آنے والے الیکشن میں کر رہی ہے، اُس کی مثال اس سے پہلے کہیں نہیں ملتی ۔ مودی جی کا ایک ہی لکش ہے کہ کسی بھی طرح 2019 کا عام چناؤ جیت لینا ہے ،چاہے اس کے لئے انہیں کسی بھی حد تک کیوں نہ جانا پڑے اور دوسروں کو بدنام کرنے ، بے ا عتبار ٹھہرانے اور دودھ کا دُھلا کا ثابت کر نے کے لئے اوچھی حرکات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں، اس کے لئے یہ ٹیم یا کمپنی لنگر لنگوٹے کسے ہمہ وقت تیار ہے اور کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ جو تماشہ سی بی آئی کے ذریعے کولکتہ میں کیا گیا اور پولیس کمشنر کے ساتھ جو ڈرامہ رچا گیا ، وہ سرکاری مشنری کے غلط استعمال کی منہ بولتی مثال ہے۔ یہاں بھی سپریم کورٹ ہی کوسامنے آکر معاملہ سلجھانا پڑا ،ورنہ یہ گراؤنڈ تیار کیا جا رہا تھا کہ ممتا بنرجی کی حکومت کسی نہ کسی بہانہ بازی سے برخواست کر دی جائے۔ مودی ٹیم اپنی دانست میں یہ سمجھتی ہے کہ بنگال میں چناؤ ہوتے ہی بی جے پی برسرِ اقتدار آ جائے گی اور یہی حال کیرلا کا ہے۔ دونوں ریاستوں میں یہ ٹیم اَن تھک کوشش کر رہی ہے کہ کسی بھی طرح ہندوووٹروں کو اپنی جانب رجھایاجائے اور ان کے ووٹوں کو پولرائز کیا جائے۔ بی جے پی کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور منتر ہے بھی نہیں ۔
کچھ دن قبل یو پی کا مستقل اور مکمل سالانہ بجٹ پیش کیا گیا ۔ اس بجٹ میں جس طرح سے ہندتوا اور ہندو سنسکر تی کے فروغ کے لئے خر چہ جات کے مد پرخاص اہمیت دی گئی ہے، اُسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہندوستان ’’ہندو راشٹر‘‘ بنائے جانے کے راستے پر بڑے بڑے ڈگ بھر کر گامزن ہے ،اس گھمبیر صورت حال پر سیکولرازم حامی عوام بالخصوص مسلمانوں کا فکروتشویش میں مبتلا ہو نا فطری امر ہے۔ چونکہ یہ سب وزارتِ تہذیب و ثقافت کے سائے تلے ہو رہا ہے، اس لئے کوئی اس کے خلاف عدالت کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹا سکتا ہے۔ یوگی سرکار نے دکھاوے کا توازن قائم رکھنے کے لئے مدرسہ بورڈ کی جدید کاری کے و اسطے تھوڑا سی رقم مختص رکھ دی گئی ہے تاکہ یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ ہم ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کے فارمولے پر کاربند ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ وکاس کے نام پر ہندوازم کا احیاء کیا جا رہا ہے۔ اس احیاء پرستی میں ویدک کال اور سناتن دھرم کے نقوش بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کو فرقہ پرست ہندو ’’اوتار‘‘ سے کم نہیں سمجھتے اور کھلے عام کہتے ہیں کہ ہندوستان کو پہلی بار تو ہندو وزیراعظم ملا ہے ورنہ اس سے پہلے تو تمام اُن کی نظر میں ہندوتوا کو نقصان پہنچانے والے تھے کیونکہ وہ سیکولرازم اور وسیع القلبی کے اصولوںپر کاربند تھے اور ہندوستان میں رہ بس رہے تمام لوگوں اور طبقات خیال کی بات کرتے تھے۔
سرکاری مشنری اور وسائل کا استعمال جس وسیع پیمانے پر اس بار کے کمبھ میلے میں الہٰ آباد میں کیا گیا ہے اور ہندوازم کو جس طرح پیش کیا گیا ہے ،اُسے دیکھ کر یہ اندازہ کر نے میں دشواری نہیں ہوتی کہ اس کا منصوبہ دو ایک ماہ کا نہیں بلکہ کئی برسوں سے اس کی پلاننگ کی گئی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کمبھ میلے میں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے شردھالوں ایک دھارمک جذبہ لئے شریک ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کا عقیدہ و اعتقاد گنگا میں ڈُبکی لگا کر اپنے پاپ دھونا ہے لیکن گنگا ڈبکی مارنے کے بعد جب وہ اپنا سر پانی سے باہر نکالتے ہیں تو سامنے مودی اور یوگی کا پوسٹر دیکھتے ہیں ۔ ظاہر ہے اس ارادے سے وہ اس مقصد کے لئے میلے میںنہیں آئے ہوتے ہیں کہ سنگھاسن پر بیٹھے لوگوں کی قدآدم تصویریں دیکھیں لیکن انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ یہ سب دیکھیں اور دونوں کو ہندتوا کا ’’نجات دہندہ‘‘ سمجھ کر ہی واپس ہوجائیں ۔ کہتے ہیں کہ کمبھ میلہ کا میدان 10 ؍مربع کلو میٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس موقع پر پورے شہر کو مودی حکومت کی ’’ہندوتواکارکردگی‘‘ گنوانے والے ہورڈنگ، پوسٹر اور اسکرین سلائڈ سے بھر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بتا یا جاتاہے’’ سوچھ بھارت ابھیان‘‘ چلایاا،اتنے لوگوں کو گیس کنکشن دیا، گھر گھر بجلی پہنچا دی، روز اتنا کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے پوسٹروں سے تمام شہر کو رنگ دیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس میلے پر یو پی حکومت 4500 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ نجی طور پر خرچہ کرنے والے لوگ الگ ہیں ۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اتنے روپیوں میں نہ جانے کتنے ہائی ٹیک اسپتال بن جاتے اور مہلک امراض میں مبتلا مریضوں کو علاج کیلئے یورپ اور امریکا نہیں جانا پڑتا ۔ مودی حکومت کے کئی وزراء علاج ومعالجہ کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے اور کچھ تو اب بھی باہر بتائے جاتے ہیں ۔ تو کیا انہیں ہندتوا کے احیا ء کے علاوہ ملک کے فلاح وبہبود کے لئے کچھ بھی نہیں سوجھتا؟ اگر مونچھوں پر تاؤ پھیر لینے ہی سے سارا کام بن جائے تو لوگ یہی ایک کام کریں ۔ سردار پٹیل کی فلک بوس 3500 کروڑ روپے خرچ کر کے مورتی نصب کر تے وقت بھی یہی باتیں سنائی دی گئی تھیں لیکن ہوا کیا؟ یاد رکھئے آگے بھی ان سے کچھ نہیں ہونے والا! مودی حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دورِ اقتدار میں تقریباً 40 لاکھ کروڑ روپے قرضہ لئے…اور اس سے پہلے ہندوستان نے تقریباً 50 ؍لاکھ کروڑ روپے لئے تھے یعنی مودی سرکار نے ساڑھے چار سال میں قرضوں میں دوگنا اضافہ کر دیا ۔ یوپی حکومت ہندتوا کاز کیلئے جو خرچ کرے گی ،جس میں گئورکشا سے متعلق بھی اخراجات شامل ہوں گے، وہ سب تو مرکزی حکومت ہی سے لے گی کیونکہ یو پی خود ہی پہلے سے قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مودی حکومت اور ان کی دوسری ریاستی حکومتوں کی ترجیحات دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا منشا ء ہے کیا ، ترجیح ہے کیا اور یہ ملک کو کہاں لے جانا چاہتی ہیں؟
اسی طرح ایک اور شہر بنارس ہے ۔ ہندو آستھا کے مطابق الہٰ آباد میں گنگا نہانے کے بعد بنارس جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بنارس کے گھاٹ کو جس طرح سے سرکاری خرچے سے ترقی دی گئی ہے ،وہ بھی دیدنی ہے۔ گھاٹ کے باہر ہی ایک 70؍ ایم ایم کا ایک بڑا اسکرین لگا ہوا ہے جس پر شام ہوتے ہی مودی حکومت کی کارگزاریوں کا چرچاہوتا ہے۔ پتہ نہیں یہ پرائیویٹ اسکرین ہے یا سرکاری لیکن اسے خاص اسی موقع کی مناسبت سے لگایا گیا ہے۔ بیچ بیچ میں مودی جی لوگوں کوآشیرواد دیتے دکھائی جاتے ہیں یعنی اب مجھے پولنگ میں یاد رکھو ۔ ان دو شہروں کی اس تصویرکو اگر کوئی طاہر بین نگاہوں دیکھ لے تو وہ یہ مان لیتا ہے کہ مودی کو کم از کم پیش آئند الیکشن میں کوئی ہرا نہیں سکتا۔ یہ پاور ہے سیاسی اشتہار بازی اور پروپگنڈے کا اور اس میں ہندتوا کا تڑکا بھی بڑے فن کارانہ طریقے پر لگا یا جاتا ہے۔ یہ بھی جان لیں کہ ان دو کے بعد متھرا بھی ہے اور ایودھیا ( فیض آباد ) ان تمام سے اوپر ہے یا آگے پیچھے ،یہ تو وہی بتائیں گے۔ اس انتخابی پروپگنڈے کے علاوہ تین چار فلمیں بھی لگاتار آئی ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد یہ لگتا ہے کہ ان کی فنڈنگ بی جے پی یا کسی ہندتوا تنظیم نے کی ہے کیونکہ ان میںہر زاؤئے سے بی جے پی اور ہندتواکاز کی تشہیر کا مرچ مسالہ بھرا ہوا ہے ۔ پہلی فلم ’’ایکسڈینٹل پرائم منسٹر‘‘، دوسری فلم ’’ اوڑی،‘‘ تیسری فلم ’’ ٹھاکرے‘‘ اور چوتھی فلم ’’رانی لکشمی بائی ‘‘نام سے سنیماؤں کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ قومی الیکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیااور سوشل میڈیا کا رول بھی انتخابی جنون کی آگ فرقہ وارانہ بنیادوں پربھڑکانا کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری دیکھی اور اَن دیکھی طاقتیں مودی کو الیکشن جتوانے کیلئے لگا ئی گئی ہیں، اس کے باوجود بھی یہ ہار جاتے ہیں تو جیت کس کی ہوگی؟ یہ عوام خود ہی وقت پر سمجھ جائیں گے۔ ایک بار پھر ’’شائننگ انڈیا‘‘ اور’’ فیل گڈ ‘‘فیکٹر محسوس ہوتا ہوا ہی رہ جائے گا! ۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ9833999883)