وَن بیلٹ وَن روڑ

چین    کا عالمی منصوبہ جسے ون بیلٹ ون روڑ (One belt one road:OBOR)کے نام سے جانا جاتا ہے در اصل ایشیا، افریقہ اور یورپ کے کم و بیش 70 ممالک کو ایک ہی روڑ یعنی ایک ہی راستے سے ملانا ہے ۔یہ زمانہ قدیم کی شاہراہ ابریشم کی جدید شکل ہو گی البتہ مختلف ممالک کو ایک ہی راستے میں پیوست کرنے کی کوشش میں سمندر حائل ہے چناچہ شاہراہ ابریشم کے برعکس جو زمینی راستہ تھا چین کے جدید عالمی منصوبے میں جہاں پر بھی زمینی راہرو کا اختتام ہوتا ہے وہاں آبی راہروں سے ممالک کو جوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ اِس کو عملی شکل دینے کیلئے مختلف بندرگاہوں کے درمیان رابطے بڑھانے کا ایک وسیع سلسلہ شروع گیا ہے چناچہ کئی ایشیائی اور افریقائی بندگاہوں کو ایک ہی زنجیر میں پرونے کا کام بھی جاری و ساری ہے۔ اِن بندرگاہوں میں پاکستان کے ساحل پہ بلوچستان میں گوادر کی بندگاہ کے علاوہ سری لنکا ئی و افریقی بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے چین کے اِس عالمی منصوبے میں وسیع سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔چین کے منصوبے کو عملی شکل دینے کیلئے جس سرمایہ کی ضرورت ہے وہ چین کے پاس موجود ہے ۔اس حقیقت کے باوجود چینی منصوبے کو عملانے کے لئے مشکلات حائل ہیں جس میں سب سے بڑی مشکل موجودہ عالمی نظام ہے جو کہ ایک قانونی دائرے میں کام کر رہا ہے۔اس نظام کے قانونی دائرے کی بندشوں کو توڑنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ کارے دارد ہے یعنی ایک مشکل امر ہے۔
عصر حاضر کا عالمی نظام جنگ عظیم دوم کے بعد منظم ہوا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا پہ حاوی ہو گیا ۔یورپی ممالک میں جرمنی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔برطانیہ اگر چہ جنگ جیت گیا لیکن ایسا امریکی امداد سے ہی ممکن ہو سکا۔فرانس جیسا طاقتور ملک بھی جنگ کے ابتدائی دنوں میں جرمنی نے زیر کر لیا تھا ۔امریکی امداد سے اتحادی افواج کی تشکیل کے بعد ہی فرانس سمیت دوسرے یورپی ممالک کو جرمنی کے چنگل سے چھڑا لیا گیا۔اتحادی افواج کا سپریم کمانڈر امریکی جنرل آئزن ہاور(Eisenhower)  تھا اور یورپ میں بھی جنرل پیٹن (Patton) جیسے امریکی جنرل کے ہاتھ میں اتحادیوں کی کمان تھی ۔برطانیہ کے مشہور جنرل منٹگمری  (Montgomery) کا بھی جنگ میں خاصہ رول رہا لیکن جنگ کے دوران برطانیہ شدید مالی بحران کا شکار ہوا چونکہ شمالی افریقہ سے لے کے یورپ تک محاز جنگ پھیلا ہوا تھااور برطانیہ میں جرمنی کے فضائی حملوں سے تباہی پھیلی ہوئی تھی۔امریکہ نے نہ صرف مالی سہارا فراہم کیا بلکہ پرل ہاربر(Pearl Harbor)پہ جاپانی فضائی حملے کے بعد پوری طرح جنگ میں شامل ہوا۔ جاپان جنگ میں جرمنی کا اتحادی تھا اور اِس اتحاد میں اٹلی بھی شامل تھا ۔اِس اتحاد کو ایکسیس (Axis)کا عنواں دیا گیا جبکہ امریکہ ،برطانوی اور روسی اتحاد کو ایلیڈ فورسز (Allied Forces) کا نام دیا گیا۔ایلیڈ فورسز کی واضح فتح کے بعد امریکہ اور روس میں یورپ پہ قبضے کے معاملے پہ ٹھن گئی۔انجام کار مغربی یورپ امریکی حصار میں آ گیا جبکہ روس نے مشرقی یورپ کو اپنے نرغے میں لیا۔روس اُس زمانے میں یونائٹیڈ سوؤیت سوشلسٹ ریپبلک (USSR)کے نام سے پہچانا جاتا تھا جس میں ایشیائی مرکزی کی مسلم ریاستیں بھی شامل تھیں۔
امریکہ اور روس دنیا کے سپر پاور بن گئے ۔جہاں روس فوجی زمرے میں امریکہ کے ہم پلہ تھا وہی یہ بھی ایک حقیقت رہی کہ روس اقتصادی ضعف سے دو چار تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک نئی عالمی تنظیم وجود میں آئی جو اقوام متحدہ (United Nations) کہلائی جبکہ جنگ سے پہلے کی عالمی تنظیم لیگ آف نیشنز (League of Nations)کہلاتی تھی۔ لیگ آف نیشنزکا مرکز سوئزر لینڈ کا شہر جینوا تھا جبکہ اقوام متحدہ کا مرکز امریکی شہر نیو یارک بن گیا۔اقوام متحدہ میں عالمی نظام کی تنظیم میں جو بھی قوانین بن گئے اُن پہ امریکی کی گہری چھاپ ہے اور ظاہر ہے یہ قوانین امریکی بالا دستی کی نشاندہی کرتے ہیں گر چہ ظاہر میں یہ قوانین حقوق بشر کے ضامن ہیں لیکن مسلہ اُن کے لاگو کرنے میں ہیں ۔اِن قوانین کو لاگو کرنے میں امریکی مفادات پہ نظر رکھی گئی ۔ جہاں یہ امریکی مفادات کی نگہبانی کرتے نظر آئے وہاں یہ اپنے اصلی معنوں میں لاگو کئے گئے لیکن جہاں اِن عالمی قوانین امریکی مفادات کے منافی نظر آئے وہاں اُنہیں پاؤں تلے روند دئے گئے۔امریکی کی بالا دستی نہ صرف عالمی سیکورٹی کے زمرے میں عیاں ہے بلکہ عالمی اقتصاد پہ بھی امریکہ کی چھاپ ہے۔عالمی اقتصاد کہاجا سکتا ہے امریکی ڈالر کے نرغے میں ہے۔ 
عالمی پس منظر کو نظر میں رکھتے ہوئے چین کی اُن کاوشوں کو پرکھنا ہو گا جو وہ ایک نئے عالمی نظام کو تشکیل دینے کیلئے کر رہا ہے۔چین کا سامنا  ایسے عالمی قوانین سے ہے جن پہ جیسا کہ عیاں ہے امریکی کی گہری چھاپ ہے ثانیاََعالمی اقتصاد پہ امریکی ڈالر کی گہری چھاپ جس کے نرغے سے فرار محال نظر آتا ہے۔ چین نے ون بیلٹ ون روڑ کا خاکہ 2013ء میں پیش کیا تھا اور یہ چینی صدر شی جن پنگ (Xi Jinping)سے منصوب ہے۔ 2013ء تک چین کے پاس وہ سرمایہ پوری طرح موجود تھا جو منصوبے کو عملیانے کیلئے ضروری تھا اور سرمایہ کی یہ وسعت چونکہ چین کو اُسی عالمی نظام میں حاصل ہوئی تھی جو رائج الوقت ہے لہذا چین فیلاََ اُسی عالمی نظام کے تحت عمل پیرا رہنا چاہتا ہے لیکن دراز مدت میں وہ اِس نظام پہ اپنی چھاپ ڈالنا چاہتا ہے البتہ کسی بھی تبدیلی کو چین انتہائی محتاط اندازمیں عملی بنانا چاہتا ہے۔ عالمی تجارت کے مسلے کو ہی لے لیں جو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن  (World Trade Organization: WTO)کے تعین کردہ قوانین کے تابع ہے۔اِس تنظیم کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے چین آج ایسے مقام پہ کھڑا ہے جہاں عالمی اقتصادی میدان میں وہ امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر براجمان ہے ۔کہنے کو تو چین دوسرے نمبر پہ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین اور امریکہ کے مابین تجارتی توازن میں امریکہ خسارے میں ہے ۔دوسری عیاں حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ اقتصاد کا انحصار چینی قرضے پہ ہے۔جہاں یہ حقائق عیاں ہیں وہی یہ بھی صیح ہے کہ امریکی اقتصاد میں اتنی وسعت ہے کہ خسارے کا متحمل ہو سکتا ہے۔چین البتہ اِس صورت حال کے بنائے رکھنے پہ کچھ حد تک مجبور بھی ہے کیونکہ اُس کو سیکورٹی کے مسائل کا سامنا ہے۔
عالمی تجارت میں چین کی تجارتی راہرو جنوبی چینی سمندر (South China Sea)کا ساحل ہے۔یہاں بحر منجمند کی وسعتوں سے چینی ایکسپورٹ ملاکا کی آبی راہرو ((Strait of Malacca) سے گذرتے ہوئے بحر ہند میں داخل ہو جاتا ہے اور یہاں سے چینی مال ایشیائی جنوبی،ایشیائی مغربی اور مغربی یورپ کی تجارتی منڈیوں کو سپلائی ہوتا ہے ۔یہ ایک لمبا سمندری راستہ ہے جس پہ ہر دم امریکی بحری بیڑے کی نظر لگی رہتی ہے۔جہاں چین کا ایکسپورٹ اِس راستے سے عالمی تجارتی منڈیوں میں پہنچتا ہے وہی یہاں سے چین کی سب سے بڑی ضرورت یعنی انرجی امپورٹ ہوتی ہے۔انرجی چین کی صنعت کیلئے حیاتی ہے۔اپنے ایکسپورٹ و امپورٹ کو بنائے رکھنے کیلئے چین جہاں امریکہ سے اُلجھنا نہیں چاہتا وہی ثابت قدمی سے جنوبی چینی سمندر پہ بلا شرکت غیرے اپنا حق بھی جتا رہا ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اپنی تجارت کو تحفظ بخشنے کیلئے ایک متبادل راستے کی تلاش میں ہے۔یہ متبادل راستہ چین کو کوہ قراقرم کی بلندیوں سے گذرتے ہوئے پاکستانی بندرگاہ گوادر تک پہنچارہا ہے۔ گوادر پورٹ کو بنانے میں چین نے وسیع سرمایہ کاری کی ہے چونکہ گوادر پورٹ کواپنی تجارتی راہرو بنا کے ایک تو مسافت موجودہ تجارتی راستے سے کم و بیش یک سوم (1/3rd)رہ جائی گی ثانیاََ چینی امپورٹ و ایکسپورٹ امریکی شر سے محفوظ رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ گوادر پورٹ چین کیلئے حیاتی بن چکی ہے ۔اپنے متبادل راستے کو اقتصادی تحفظ بخشنے کیلئے چین پاکستان میں 62بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس میں سڑک اور ریل کے رابطوں میں پھیلاؤ کے علاوہ انرجی کی سپلائی کو وسعت بخشنا شامل ہے۔یہ سب اقتصادی پروگرام چین پاکستان اقتصادی راہرو کا حصہ ہے جسے سی پیک ((China Pakistan Economic Corridor: CPEC)کہا جاتا ہے۔ یہ ون بیلٹ ون روڑ کا اہم ترین انگ ہے۔ 
بحر عرب اور بحر ہند کی ساحلی ممالک پہ بندرگاہوں کا ایک جال بچھا کے چین امریکی نگرانی کا سبب بن رہا ہے ۔پچھلے مہینے مارچ کے وسط میں امریکی جنرل جوزف ڈن فورڑ ( Joseph Dunford) نے جو کہ جوئنٹ چیفس آف سٹاف کے چیرمین  (Chairman of US Joint Chiefs of Staff) اور اِس حثیت سے امریکہ کے سب سے بڑے جنرل ہیں سنیٹ آرمڈ سروسیز کمیٹی ( Senate Armed Services Committee) کے روبرو ایک اہم بیاں دیا۔یہ بیاں چین کی سرمایہ کاری کے متعلق تھا اور اُس میں اُنہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چین اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے ایک شکاری کی مانند اپنی اقتصادی دھونس سے مختلف ممالک کو پھنسانے کیلئے بین الملی جال پھیلا رہا ہے ۔اُنکے بیاں کا مدعا اور مقصد یہ رہا کہ جو سرمایہ کاری چین کر رہا ہے وہ قرض کی صورت لئے ہوئے ہے اور اِن ممالک کو پاس یہ قرض لوٹانے کیلئے وسائل نہیں ہیں ۔قرضے کی عدم ادائیگی کی صورت میں چین حسب منشا رعایتیں لے رہا ہے جس کی مثال سری لنکائی بندرگاہ ہم بن ٹوٹا(Hambantota) ہے جو چینی سرمایہ کاری سے بنی لیکن جب سر ی لنکا قرضے کی ادائیگی میں نا کام رہا تو سر ی لنکا نے چین کو 99سالہ لیز اور بندرگاہ میں 70 فیصدی حصہ داری دی۔ پاکستان کے بارے میں امریکی جنرل کا یہ کہنا رہا کہ گوادر پورٹ کی تعمیر میں 10 بلین ڈالر کا مقروض ہوا ہے جبکہ مالدیپ پہ ڈیڑھ بلین ڈالر کا قرضہ ہے جو کہ اُس کی مجموعی داخلی تولید( GDP) کا 30 فیصدی حصہ بنتا ہے۔
  امریکی جنرل ظاہر ہے اپنے بیاں بازی سے مختلف ممالک کو جو کہ چینی سرمایہ کاری کیلئے بچھے جا رہے ہیں خبردار کر رہے تھے کہ قرضے کے بھنور میں پھنس جائیں گے لیکن پھر بھی چینی سرمایہ کاری کی وسعت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق سرمایہ کاری کی مجموعی رقم 340 بلین ڈالر ہے اور اندازہ یہ ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں یہ رقم 800 بلین ڈالر کو چھو سکتی ہے۔ماضی میں امریکہ نے بھی یورپ کو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد باز آباد کاری کیلئے 12 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی جو کہ آج کے تخمینے میں کم و بیش 100 بلین ڈالر کا سرمایہ بنتا ہے ۔ظاہر ہے یہ سرمایہ کاری یورپی ممالک کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں لانے کیلئے تھی لیکن آج چین پہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ مختلف ممالک کو پھنسانے کیلئے جال پھیلا رہا ہے بلکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو نے حال ہی میں یہ بیاں دیا کہ چین امریکی سیکورٹی کیلئے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
چین کے پاس خارجی سرمایہ کاری کیلئے بے پناہ وسائل ہیں لیکن سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ چین احتیاط سے کام لے رہا ہے۔موجودہ عالمی نظام اور اور نظام کو چلانے کیلئے جو قوانین مرتب ہوئے ہیں چین اُنکی پاسداری کے ساتھ ساتھ جہاں بھی ضرورت پڑتی ہے اپنے نکتہ نگاہ کو عالمی منظر نامے کا حصہ بنا رہا ہے۔حقوق بشر کے دائرے پہ چین پہ کافی تنقید ہوتی ہے چونکہ وہاں واحد حزبی کمیونسٹ نظام رائج ہے چناچہ چین پہ ڈکٹیٹری کا الزام لگانے کے ساتھ ساتھ تبتی عوام اور چینی ترکستان کے مسلمین کے تئیں نا زیبا سلوک روا رکھنے کا الزام بھی عائد ہوتا ہے ۔چین اِن الزامات کی کاٹ کم کرنے کیلئے اقتصادی ترقی کے حق (right to development) کو فروغ دے رہا ہے چونکہ سرعت سے اقتصادی ترقی کے منازل طے کرنے میں چین لا ثانی ہے اور ترقی پذیر و کم ترقی یافتہ ملکوں کیلئے یہ حق مانگنے سے چین اِن ممالک کی رہبری میں پیش پیش نظر آ رہا ہے۔ ممالک کے مابین مواصلات کو وسعت دینے کو چین تحرک کے حق (right to movement) کی شکل میں عالمی منظر نامے پہ لا رہا ہے۔حقوق انسانی کو اپنے رنگ میں رنگنے کے ساتھ ساتھ چین موجودہ حقوق کی پاسداری میں ماحولیات کے ضمن میں جہاں پیرس ایگریمنٹ کا حامی ہے وہی ڈنمارک میں طے شدہ موافقت نامے سے بھی اپنی رضایت کا اعلان کر چکا ہے۔ 
خارجی سیاست میں چین پنچ شیل کو ابھی بھی رہنما اصول مان رہا ہے۔ پنچ شیل پانچ اصولوں پہ مبنی ہے جن کا تعین 1954ء میں ہوا تھا۔یہ اصول چینی وزیر اعظم چو این لائی اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے مابین طے ہوئے تھے جن میں ملکی سالمیت کا پاس، ،عدم تشدد، ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت،برابری کی سطح پہ رشتوں کی استواری،باہمی امنیت کے اصول کار فرما تھے۔ چین اِن اصولوں کی پاسداری میں اقوام متحدہ میں اپنی کار کردگی کا حوالہ دے رہاہے جہاں وہ مغربی مداخلت کی مخالفت میں پیش پیش رہتے ہوئے پسے ہوئے ممالک کی آواز بن کے عالمی نظام اور اُس میں کار فرما قوانین کی سمت بدلنے کی سعی میں رو اں ہے البتہ احتیاط کے ساتھ تاکہ عصر حاضر کی عالمی بازی کو الٹنے کے دوراں ہنگامہ آرائی نہ ہو۔
Feedback on: [email protected]