جاوید اختر بھارتی
انسان اگر صرف اپنے لئے جئےمرے تو پھر وہ خود غرض ہے، اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے ۔ قوم کی خدمت بہترین عمل ہے، چاہے وہ انفرادی طور پر کی جائے یا اجتماعی طور پر۔ یاد رکھیں کہ ایک انسان جتنا زیادہ قدآور اورخوشحال ہوتا ہے، اتنا ہی اس سے عزیز واقارب، پڑوسی اور سماج کے لوگوں کو امیدیں بھی وابستہ ہوتی ہیں۔ ممبر پارلیمنٹ ہو ممبر اسمبلی، بلاک پرمکھ ہو یا پردھان، چئیرمین ہو یا نگر پنچایت کا ممبر ،کام سب کا یہی ہے کہ قوم کی خدمت کریں، اُن کے سکھ اور دکھ میں شریک رہیں، بے سہاروں کا سہارا بنیں، غریبوں کی مدد کریں اور حکومت کی جو مراعات و سہولیات اور اسکیمیں ہیں ،اُنہیںعوام کو مہیا کرانے میں اہم کردار ادا کریں۔
نگر پنچایت کا ذمہ دار چئیرمین کہلاتا ہے اور وارڈ کا ذمہ دار ممبر کہلاتا ہے یعنی نگر پنچایت کا ممبر خود اپنے محدود علاقے پر نظر دوڑائے کہ صاف صفائی ہورہی ہے کہ نہیں، کہیں گندگی کا انبار تو نہیں ہے، کہیں نالیاں جام تو نہیں ہیں، کہیں محلے کے راستے میں گڈھے تو نہیں ہیں، لوگوں کے چلنے پھرنے میں مشکلات کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام چیزوں پر نظر رکھنا نگر پنچایت کے وارڈ ممبر کی ذمہ داری ہے اور مذکورہ معاملات سے چئیرمین کو روشناس کرانے کی ذمہ داری بھی ایک ممبر کی ہی ہے یعنی ایک ممبر سے لے کر چئیرمین تک کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ عوام نے ہمارے اوپر اعتماد کرکے اپنا نمائندہ تسلیم کیا ہے اورہم سے بڑی امیدیں وابستہ رکھی ہیں تو گویا عوام کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے، عوام بدظن نہ ہو۔
صاف صفائی پر توجہ مرکوز رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ گندگی کی وجہ سےبیماریاں نہ پھیلں۔ مگر افسوس! آج کوئی چھوٹا منصب ہو یابڑا ،جو اس پر فائز ہو، وہ اپنے آپ کو عوام سے بہت بلند سمجھتا ہے ،کوئی شخص اپنی فریاد لے کر پہنچتا ہے تو اسے اتنی حقیر نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کہ دوبارہ ضرورت پڑنے پر اس کے اندر ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ممبر سے کسی چیز کا مطالبہ کرے۔ یاد رکھیں کہ سروس یعنی ملازمت الگ ہے اور سیاست الگ ہے۔ یوں تو افسران بھی عوام کی خدمات انجام دینے کے لئے ہی ہوتے ہیں مگر وہ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں مگر ایک وارڈ کے ممبر سے لے کر پارلیمنٹ کے ممبر تک، چئیرمین سے لے کر چیف منسٹر تک اور پردھان سے لے کر پردھان منتری تک عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نمائندوں سے سوال وجواب کرے، حمایت و مخالفت کرے، تنقید و تعریف کرے مگر مقصد مفاد عامہ ہونا چاہئے، تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے تعمیر و اصلاح ہونی چاہئے۔ اس سے بغض و حسد کو جگہ نہیں ملتی اورنہ کینہ ہوگا۔ اور جب سب مل کر کام کریں گے تو پورا نگر پورا شہر روشن ہوگا اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا، گویا ہر ایک کے اندر سماج، معاشرہ، سوسائٹی، ملک و قوم کو مضبوط کرنے کا جذبہ ہونا چاہئے، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔
اس وقت اترپردیش میں شہری انتخابات ہورہے ہیں ،اسلئے سبھی لوگ امن وشانتی کا ماحول بنائیں اور ہر ووٹر بے خوف ہوکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے۔ کیونکہ سیکولرازم کو مضبوط کرنے کے لیے منصفانہ انتخابات بہت ضروری ہیں۔ حکومت و انتظامیہ بھی مسلسل اپیلیں کر رہی ہیں اور ایسے انتظامات کر رہی ہے کہ ہر ووٹر بلا خوف ہوکر آسانی کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکے، اس لیے سبھی لوگ امن کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور ماحول پرامن بنائے رکھنے میں تعاون کریں، کسی قسم کے اور کسی شخص کے بہکاوے میں نہ آئیں۔یہ الگ بات ہے کہ کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے، لیکن ماحول کا پرامن رہنا بہت ضروری ہے اور انتظامیہ بھی یہی چاہتی ہے۔ اس لئے امید بھی ہے اور یقین بھی ہے کہ انتظامیہ ماحول کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ انتخابات کرائے گی۔ کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو ایک شیشی کے بدلے میں ووٹ دیتے ہیں، سو روپے پانچ سو روپے لے کر ووٹ دیتے ہیں ۔ ایک ووٹ کی قیمت کیا ہوتی ہے یہ جاکر کوئی سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کی سمادھی پر کھڑا ہوکر پوچھے، آنجہانی ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی آتما سے پوچھے ،تب معلوم ہوگا کہ ایک ووٹ کی قیمت تو کوئی سات جنم میں بھی ادا نہیں کر سکتا۔ اس لئے ووٹ کی اہمیت اور قیمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ووٹوں سے حکمت عملی تیار ہوتی ہے، مستقبل سنورتا ہے، حکومت بنتی ہے اور حکمرانی حاصل ہوتی ہے۔
[email protected]