حال ہی میں پیش کئے گئے ایک کالم جو ابھی قارئین کے ذہنوں میں تازہ ہوگا، کے سلسلہ میں جوڑتے ہوئے عرض کرنا چاہوں گا کہ انتہائی دُکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ جھیل کو توہم نے بنجرکردیا ہے اور ایک پائوں پر ہم کلہاڑی مار ہی چکے ہیں مگر دوسرے پائوں کا بھی ہم نے کوئی لحاظ نہیں کیا ۔وہ اس طرح کہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پالی تھین لفافہ جس کو عرف عام میں نائیلون لفافہ یا نائیلون بیگ کہا جاتا ہے ،زمین کے اندر باقی کئی اشیاء کی طرح گھلتا سڑتا نہیں اور نہ ہی نابود ہوجاتا ہے بلکہ اپنی ہیئت و حیثیت میں برقرار رہتا ہے ۔ایسی زمین یا ایسا خطہ یا زمین کا ٹکڑا جس کے اندر یہ لفافہ موجود ہو وہ بنجر ہوجاتا ہے ۔اُس میں گل بوٹا نہیں لگتا یا فصل پیداوار نہیں ہوتی ۔جب ہم ایسی پدارت میں سودا لاتے ہیں تو پھر اس کا مصرف کچھ بھی نہیں رہتا مگر ہم اس کو ضائع کرنے یا جلانے کے بجائے باہر سڑکوں ،گلی کوچوں یا نالیوں میں پھینک دیتے ہیں یا اپنی ہی کوئی خالی زمین وغیرہ ہوئی اُس میں دیگر کوڑا کرکٹ کے ساتھ ڈال دیتے ہیں ۔وہ ہمارے کھیتوں ،باغوں ،ساگ زاروں میں چلا جاتا ہے اور اس طرح سے ہم اپنے کھیتوں ،ساگ زاروں ،سبزی ترکاری کے قطعوں اور باغ بغیچوں کو خود اور جان بوجھ کر بنجر بنادیتے ہیں ۔کیا اس بارے میں ہم نے کبھی غور و فکر کیا ہے کہ ہم جو کانٹے بو رہے ہیں اُن کا انجام آخر کا ر کیا ہوگا ۔
سرکاری حکم کے مطابق پالی تھین سامگری پر قدغن لاگو ہے اور اس کے علاوہ بلدیاتی ادارے بھی اکثر و بیشتر چھاپے مار کر اس مال کو ضبط کرکے ضائع کردیتے ہیں مگر اُس کے باوجود بازار میں کھلے عام یہ چیز دوکانداروں کے استعمال میں ہے اور ہزاروں ٹن پالی تھین وادی میں ہر مہینے داخل ہوجاتا ہے ۔آخر یہ لاتا کون ہے ،کون اس کا کاروبار کرتا ہے ،کون اپنی قوم ، اپنی ریاست اور اپنے وطن کا دشمن ہے ،کون انسانی نسل کے ساتھ ،انسانی بقاء وحیات کے ساتھ کھیل رہا ہے؟کیا اس بارے میں ہم نے کبھی غور کیا ہے ۔ حالانکہ یہ بات ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ کالی بھیڑکوئی منگل گریہہؔ یا چاندؔسے آیا ہوا ایلینؔ نہیں ہے ،وہ ہم اور آپ میں سے ہی کوئی ہے یا بالفاظ ِ دیگر وہ ہم ہی ہیںاور ہم ہی اپنے آپ کے دشمن ہیں اور جان بوجھ کر تباہی کی طرف گامزن ہیں۔چپ چاپ ،آنکھیں موندے ،گویا بقول کسے ’’دیکھتا سب کچھ ہوں لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں۔‘‘
سرکاری حکم امتناعی کے باوجود بازار میں پالی تھین کا بلا روک ٹوک عام استعمال ہوتاہے ۔ذاتی تجربے کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں مندرجہ ذیل اشیاء پالی تھین بیگوں میں ملتی ہیں:
گوشت ،مرغا ،انڈا ،سبزی ترکاری میں سے تقریباً ہر ایک چیز۔اگر اپنا تُوبرا یا تھیلا ساتھ نہ ہو ۔پھل فروٹ ،مونگ پھلی مٹر ،دال آٹا ،بیسن ،صابون ،ٹائیلٹ گڈس ،انڈر گارمنٹس ،ترکھان اور رنگ ساز کا سامان ، بجلی کا سامان ،نانبائی کی روٹی ،بزاز کے ہاں سے کپڑا ،بیکری جنک فوڈ،وغیرہ وغیرہ ۔اب خدارا آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ باقی کیا رہ جاتا ہے ؟ حالانکہ کچھ اشیا ء کا ذکر میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ،جو میں ہاتھوں میں اُٹھا کر لاتا ہوں ۔اس بات سے آپ اس حقیقت کا بھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ پالی تھین بیگ کی کتنی کھپت ہے اور یہ باہر سے کس مقدار میں آکر وادی میں تباہی مچانے کے لئے درآمد کیا جاتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ آپ یہ بھی جان جائیں گے کہ اس کالے کاروبار کے ساتھ منسلک لوگ اور وہ لوگ جن کی چشم پوشی سے یہ پدارت درآمد ہوتی ہے ،صرف اور صرف چند روزہ پُر تعیش زندگی پانے کے لئے قوم کے ساتھ کیسا چھل کررہے ہیں ۔ اپنے مفادات میں اندھے ہوکر وہ کتنے محب ِانسان اور محب ِوطن ہیں ،وہ ظاہر ہی ہے ۔
اپنی ایک اور بدحواسی کے بارے میں بھی سنئے ۔لگ بھگ ساڑھے چار سو برس قبل ایک بار انگلستاؔن کے لوگوں نے جنونی پیمانے پر جنگلوں کی کٹائی کرکے اپنے لئے مکان ،شیڈ،گائوخانے اور چبوترے بنا ڈالے۔جنگلوں کا مکمل طور سے صفایا ہونے کے کارن بارش برف جب نہ ہوئی تو پانی کی قلت پڑگئی ،نتیجے کے طور پر قحط سالی ہوگئی اور ہزاروں لوگ بھک مری کا شکار ہوگئے ۔اُسی ملک کے بارے میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک بار ایسی ہی کسی صورت حال کے نتیجے میں جب ملک میں اَناج کی قلت ہوگئی تو لوگ بھوک سے بے حال سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگے ۔انگلستان کا بادشاہ جارجؔ اپنی بیٹی میریؔ کے ہمراہ موٹر میں کہیں جارہا تھا ،بیٹی نے جب لوگوں کو بے حال اور کسمپرسی کی حالت میں مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا تو اپنے باپ سے پوچھا کہ یہ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں ؟ باپ بادشاہ نے بیٹی شہزادی کو کہا :بیٹی ! یہ لوگ روٹی مانگ رہے ہیں ،اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔‘‘میریؔ نے اپنے ہی زعم میں اپنے ماحول کے پیش نظر کہا ’’تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے ہیں؟‘‘۔ارے واہ! چڑیا کی جان گئی بچوں کا تماشہ کے مترادف یہ حق بات ہے کہ اپنی بلا سے بُوم بسے یا ہُمار ہے ۔عین غین یہی صورت حال ہماری ہوگئی ہے ،ہمارے یہاں جنگلوں سے اتنے درخت کٹ گئے، اس مقدار میں لکڑی کی سمگلنگ ہوئی کہ کہتے ہیں کہ باہر کے لوگوں نے جب دیکھا کہ گنگا بہتی ہے اور زور و شور سے بہتی ہے تو انہوں نے نہ صرف اُس میں ہاتھ ہی دھو لئے بلکہ پوری اور بھر پور ڈبکی لگائی اور اس سمگل شدہ لکڑی سے جب شہ ملی تو اخروٹ کے کچھ درخت جو صحنوں ،باغوں اور کچھ دور احاطوں میں تھے ،وہ بھی اُسی لپیٹ میں آئے اور انہوں نے مختلف قسم کا فرنیچر اور آرائشی جالیاں اور طغرے بنوا لئے ۔پھر اُس سامان کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں موجوداپنے گھروں کو روانہ کردیا ۔یہ قصور فرنیچر بنانے والے کاریگرکا نہیں ہے کیونکہ وہ مجبور تھا ۔ ایک تو اپنی روزی روٹی کے لئے اور دوسرے سر پر تلوار کی وجہ سے ۔ قصور وار وہ سمگلر ہے جو صرف اپنے پائوںپر ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کے پائوں پر کلہاڑی مار رہا ہے اور وہی شاخ کاٹ رہا ہے جس پر وہ خود کھڑا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اغیار کو بھی لوٹ کی ترغیب دے رہا ہے ۔یہ قوم کی کتنی بڑی بد نصیبی ہے کہ اپنے ہی لوگ اپنی قوم کو سزا دے رہے ہیں۔ (باقی آئندہ انشا ء اللہ)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995