وقت قدرت کی طرف سے ایک ایسا نایاب تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے یہ ایسی نعمت ہے جو امیر، غریب، عالم، جاہل ہندو مسلمان یعنی سب کو یکساں طور پر عطا کی گئی ہے اب یہ ایک انسان پر منحصر کرتا ہے کہ وہ کس طرح سے اس نعمت کا استعمال کرے گا دنیا کے تمام مذاہب میں وقت کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا گیا ہے اور اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں وقت کی قدر و منزلت کو واضح طور پر بیان فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسمیں کھائی ہیں جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت اجاگر ہوتی ہے کیونکہ اللہ عزوجل کبھی بھی کسی کمتر چیز کی قسم نہیں کھاتے۔ اللہ رب العزت نے فجر کی، عصر کی، دن اور رات کی اور کبھی چاشت کی قسم کھائی ہے اس سے وقت کی قیمت عیاں ہوتی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ متعدد بار احادیث مبارکہ میں وقت کا ذکر آیا ہے جن سے وقت کی قدر و منزلت کا پتا چلتا ہے حدیث پاک میں آیا ہے کہ پانچ چیزوں کوپانچ سے قبل غنیمت سمجھو ، زندگی کو مر نے سے پہلے اور صحت کو بیماری سے پہلے اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور مالداری کو فقر سے پہلے۔
اس حدیث پاک میں ذی شعور انسانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ زندگی بہتر ہے مرنے سے پہلے اور فراغت بہتر ہے مشغولیت سے یعنی ہمیں زندگی میں وقت کی قدر کرنی چاہئے وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے موت کے بعد وقت کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گئی کہ وقت کن کاموں میں گزارا دیکھا جائے تو قدرت خود وقت کی پابند ہے وقت پر سورج طلوع ہوتا ہے اور وقت پر غروب ہوتا ہے دن رات، صبح شام، یہ سب وقت کا ہی تو انتظام ہے اللہ رب العزت نے دن میں پانچ نمازیں مقررہ وقتوں پر فرض کی ہیں روزوں کے لیے باضابطہ وقت مقرر کر دیا گیا حج اور عمر کے لیے سال کا ایک مخصوص حصہ مقرر کیا گیا ہے یعنی دنیا کا یہ سارا نظام وقت کا باپند ہے اس میں اگر ذرا بھی تغیر و تبدیلی رونما ہو جائے تو دنیا کی کایا پلٹ ہو جائے گا گھڑی اپنی ٹک ٹک سے ہمیں وقت کی اہمیت کا احساس دلاتی رہتی ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ گھڑی کی ٹک ٹک کو معمول نہ سمجھا جائے یہ زندگی کے درخت پر کلہاڑی کے وار ہیں اور اس کلہاڑی سے یہ درخت ایک دن کٹ ہی جائے گا اس لیے ہمیں منٹوں کا خیال رکھنا چاہیے گھنٹے اور دن اپنا خیال خود رکھیں گے وقت کسی قیمتی دوا سے کم نہیں ہے وقت گہرے سے گہرے زخم کو کو بھی بھر دیتا ہے بلکہ وقت اور صبر ہی ہر مصیبت کی دوا ہے کیوں کہ وقت کی ایک بہت اچھی عادت ہے کہ جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے لہذا کامیابی میں زیادہ خوش اور ناکامی اور پریشانی میں ذیادہ غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا
زندگی کا دوسرا نام وقت ہے جو انسان وقت ضائع کرتا ہے دراصل وہ اپنی زندگی ضائع کرتا ہے وقت اگر ایک بار ہاتھ سے نکل جائے تو دنیا کی ساری دولت خرچ کرنے پر بھی وقت کا ایک لمحہ واپس نہیں لایا جا سکتا ہے وقت بنا کسی رکاوٹ اور ٹھہراو کے گزرتا جاتا ہے وقت کی مثال ایسی ہے جیسے دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی باٹلی ہے جو ہر لمحے پگلتی جاتی ہے جتنا زیادہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے بہتر ہے ورنہ یہ برف پگل جائے گا اور ہمارے ہاتھ خالی رہیں گے اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے وقت جتنا گزرتا جاتا ہے ہمیں لگتا ہے کہ ہماری عمر بڑھتی جا رہی ہے لیکن اصل میں ہماری عمر کم ہوتی جا رہی ہوتی ہے اور ہم زندگی سے دور اور اپنی موت کے قریب ہوتے جا رہے بہت سارے لوگ سال کے اختتام پر خوشیاں مناتے ہیں لیکن وہ نادانی یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ دراصل ان کا زندگی کا ایک اور سال گھٹ گیا اور یہ جشن منانے کا وقت نہیں بلکہ اپنا محاسبہ کرنے کا وقت ہوتا ہے بیتے ہوئے وقت میں کئی ہوئی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کا وقت ہوتا ہے
اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے والا انسان ہی ایک دن سیانا اور تجربہ کار شخص کہلایا جاتا ہے اس لیے نیا سَال پر خوشی نہیں بلکہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے
ہر انسان کو چاہیے کہ وقت کی قدر کر کے اسی زندگی میں موت کے بعد کی زندگی یعنی عبدی زندگی کی تیاری کرے کسی بھی انسان اور قوم و ملت کی کامیابی کا دارومدار دراصل وقت پر منحصر ہوتا ہے جو لوگ وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اسے قدر کرتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے ہیں انہیں سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں لگتا مغربی ممالک میں رہنے والے لوگ ہر طرح کی برائیوں میں ملوث ہیں لیکن ایک بات جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا پر راج کرتے ہیں وہ بس یہی ہے کہ وہ وقت کا صحیح استعمال کرتے ہیں وقت کے صحیح استعمال سے ہی انہوں نے ہواؤں کو بھی اپنی بس میں کر لیا پہاڑوں کو چیر کر راستے بنائے ہیں سمندروں کو اپنے قابو میں کر لیا ہے وقت کے صحیح استعمال سے ہی ایک انسان نے ایسی ایسی چیزیں ایجاد کی ہیں کہ موجودہ دنیا ایک عالمی گاؤں یعنی گلوبل ولیج میں تبدیل ہو گیا
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ وقت کی قدر دان نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے
ایک کسان اگر وقت پر اپنی زمین میں ہل نہیں جوتے گا وقت پر فصل نہیں بوئے گا وقت وقت پر ادویات کا چھڑکاؤ نہیں کرے گا تو سال کے آخر پر اسے مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا اسی طرح سے جب ایک طالب علم وقت پر جاگتا ہے وقت پر اسکول جاتا ہے اور وقت پر اپنا کام کرتا ہے تو اسے امتحان میں کامیابی حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ بڑے بڑے کارنامے انجام دیتا ہے جب کہ وقت ضائع کرنے والے بچے ناکام ہو جاتے ہیں موجودہ دور کے لوگ خاص کر امت مسلمہ وقت کی ناقدری کر رہی ہے وقت کا بیشتر حصہ مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر صرف بلکہ رائگاں کیا جا رہا ہے فیس بک، اور یو ٹیوب پر فضول ویڈیو دیکھنے میں قیمتی وقت گنوایا جاتا ہے کچھ لوگ فلمیں دیکھنے میں وقت ضائع کرتے ہیں جب کہ یہ وقت کتب بینی میں صرف کیا جا سکتا تھا یہ وقت اللہ رب العزت کی عبادات میں گزار کر اللہ کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی تھی اتنا ہی نہیں موجودہ نوجوان اس وقت کا تھوڑا سا حصہ بھی اگر والدین کی خدمت میں گزاریں گے تو ان کی زندگی بن جائے گی ۔
موجودہ دور میں تقریباً ہر شخص وقت کی کمی کا رونا روتا ہے آخر ایسا کیوں؟ ۔
ہم اگر ایک طائرانہ نظر اپنے اسلاف کی طرف دوڑائیں گے تو ہمیں پتا چل جائے گا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کتنے بڑے بڑے کارنامے کئے ہیں ایک ایک شخص نے سیکنڈوں کتابیں تخلیق کیں ان کے کارنامے پڑھ کر اور جان کر ایک پل کے لیے حیرانی ہوتی ہے وہ ایسا کیسے کر پائے اور ان لوگوں نے کیسے اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روشن اور تابناک کیا اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ وہ لوگ لغو اور فضول کاموں میں اپبا وقت ضائع نہیں کرتے تھے بلکہ وقت کا صحیح صحیح استعمال کرتے تھے بلکہ ایسے عظیم لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو ایک لمحے کی زیاں کو بھی جرم عظیم سمجھتے تھے موجودہ دور کے نوجوانوں کو ان اسلاف کے کارناموں سے کچھ سیکھنا چاہیے کیونکہ جو کام جوانی میں کیا جا سکتا ہے وہ بڑھاپے میں کہاں ممکن ہے زندگی کا سب سے قیمتی حصہ نوجوانی کا ہوتا ہے زندگی کے اس حصے میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے خدا نخواستہ کوئی چھوٹی سی بھی چوک ہوئی تو انسان کہیں کا نہیں رہتا اور انسان اپنی اس چوک کے لیے عمر بھر پچھتاتا رہتا ہے کیونکہ گزرے ہوئے وقت کی مثال ایسی ہے جیسے بندوق سے نکلی ہوئی گولی جس طرح بندوق سے نکلی ہوئی گولی کو واپس لانا ناممکن ہے اسی طرح گزرے ہوئے وقت کو واپس لانے کی کوشش بھی بالکل فضول اور بے کار ہے ۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
�������