عجب تری داستاں ہے اے وقت رازِ سر بستہ اک کہانی
نئے نئے گل کھلاتا ہے تُو عجب ہے یہ شانِ گلفشانی
ازل سے تُو ہی تو کررہا ہے یہ رازِ فطرت کی ترجمانی
ترے اشارے پہ ناچتی یہ زمین ہے اور بزمِ آسمانی
مُسلط اس کائنات میں ہے تری ہر اک شے پہ حکمرانی
نئی بساتا ہے بستیاں تُو اُجاڑ کر بستیاں پرانی
دوام حاصل بس ایک تجھ کو ہے اور ہے سب جہانِ فانی
تو ہی مُسلّم ہے اک حقیقت ، بجز ترے سب ہے قصّہ خوانی
کبھی تو لاتا ہے نامرادی کبھی دکھاتا ہے کامرانی
فقط ہے تیری یہ آزمائش ، ہے تیری فطرت ہی امتحانی
عجب ہے انداز تیری گردش کا جیسے اک رازِ آسمانی
کبھی کراتا ہے بادشاہی کبھی کراتا ہے پاسبانی
ہے وقت یہ بھی ہے شادمانی ، ہے وقت یہ بھی ہے نوحہ خوانی
ہے وقت یہ بھی ہے مہربانی، ہے وقت یہ بھی ہے بدگمانی
نہ ہے یہ بچپن ہی اپنے بس میں، نہ ہے بڑھاپا نہ ہے جوانی
یہ وقت ہی کا ہے کھیل سارا، ہے وقت ہی کی یہ حکمرانی
ہے عقلِ انسان محو حیرت یہ تیری گردش یہ جاودانی
ہر ایک شے اس نے کرلی بس میں نہ روک پائی تری روانی
یہ وقت ہے درسِ آگہی ہے، یہ مظہرِ شانِ اِیزدی ہے
اصول اس کا بس ایک ہی ہے ، ہو وہ مکانی کہ لامکانی
بشیر احمد بشیرؔ( ابن نشاطؔ) کشتواڑی
موبائیل؛ 7006606571