پرویز مانوس
سورج سوا نیزے پر تھا۔ _ آسمان پر شفق چھا چُکی تھی _۔ سفید ہنسوں کا ایک غول آسمان کے بیچوں بیچ ایک قطار میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ عالیہ گھر کے پاس بہنے والی نہر کے کنارےپانی میں پاؤں رکھ کر بہتے پانی کی شرارتی لہروں کو اپنے پیروں سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن بہتے پانی کو کون روک سکا ہے جس طرح وقت پَر لگا کر اُڑ گیا اسی طرح پانی اپنی رفتار سے اپنا راستہ بنا کر آگے بڑھ جاتا ہے اور پیچھے چھوڑ جاتا ہے سوچوں کا اک انبار۔
انہی سوچوں کے انبار میں عالیہ بھی کچھ ڈھونڈنے لگی۔صاف و شفاف پانی میں چھوٹے چھوٹے سفید گول کنکر اُس کو اپنی زندگی کے بکھرے ہوئے سال لگ رہے تھے جنہیں وہ سمیٹنے کی کوشش کرنے لگی۔
عالیہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ اُس کا والد بہت پہلے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگیا تھا۔ اُس کی والدہ ایک سرکاری اسکول میں ملازمہ تھی جس نے اپنی محدود تنخواہ میں سے اپنی تینوں بیٹیوں کو پڑھایا، لکھایا اور ان کی پرورش کی۔ عالیہ، جو اپنی والدہ کی سب سے بڑی بیٹی تھی، نے تعلیم میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور ایک معزز سرکاری ادارے میں نوکری پالی۔
دوران تعلیم کالج میں ہی عالیہ کی ملاقات راشد سے ہوئی تھی اور دو برس میں یہ ملاقات محبت میں تبدیل ہو گئی اور جب بات شادی تک پہنچی تو عالیہ نے راشد سے کہا کہ چونکہ اُن کا کوئی بھائی نہیں ہے اس لئے میری ماں چاہتی ہے کہ ہم گھر داماد رکھیں۔ کچھ توقف کے بعد راشد نے کہا’’ میرے لئے وہ ممکن نہ ہوسکے گا ’’پھر عالیہ نے اُس کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ شادی کے بعد وہ اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ اپنی والدہ کو دیا کرے گی کیونکہ اُن پر ابھی کافی زمہ داریاں ہیں، انہوں نے مجھے بڑی محنت سے اس قابل بنایا کہ آج میں اچھی خاصی رقم تنخواہ کے طور لیتی ہوں، تمہیں اس میں کوئی اعتراض تو نہیں ۔
اس میں بھلا مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے، بیوہ والدہ کے بھی تم پر کچھ حقوق ہیں _ مجھے فخر ہے کہ آج کے اس بے حسی کے دور میں بھی تم جیسی بیٹی ہے جسے اپنی والدہ کی ذمہ داری کا احساس ہے۔ _دیکھو عالیہ میں نے تم سے تب محبت کی تھی جب مجھے اس بات کا گماں تک نہ تھا کہ کل کو تم سرکاری ملازمت کرو گی، مجھے تم سے غرض ہے تمہاری کمائی سے نہیں، راشد نے عالیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تو عالیہ کو دلی تسلی ہوئی کہ اُس نے اپنی ازدواجی زندگی کے لئے کسی غلط شخص کا انتخاب نہیں کیا _۔
راشد ایک نجی کمپنی میں بطورِ اکاوٹنٹ کام کرتا تھا ۔گھر میں ایک بھائی دو بہنیں اور والدین تھے۔ _ماں تھوڑا تُند مزاج تھی، اس لئے باپ کی کم ہی چلتی تھی _ ۔
آخر کار عالیہ کی شادی راشد سے ہوگئی ۔ شادی کے بعد عالیہ کی زندگی یکسر تبدیل ہو گئی۔ وہ اپنی نوکری اور نئے گھر کی ذمہ داریوں میں الجھ گئی لیکن اُس نے اپنی تنخواہ سے کچھ حصہ اپنی والدہ اور بہنوں کے لیے مختص کر رکھا تھا تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں کیونکہ اُس کی ماں اب ملازمت سے سُبکدوش ہوچکی تھی _۔
شروع شروع میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن کچھ ہی ماہ بعد راشد کی ماں نے عالیہ سے کہا” بیٹی ۔۔۔!تجھے تو پتہ ہی ہے روبی کا رشتہ طے ہو چکا ہے، کچھ روز بعد لڑکے والوں کے گھر جانا ہے، خالی ہاتھ تو جائیں گے نہیں اس لئے سونے کی کوئی چیز لانی ہے، اس کے لئے کچھ رقم درکار ہے، فی الحال پچاس ہزار کی ضروت ہے کیا تم دے سکتی ہو؟
عالیہ سوچوں میں پڑھ گئی کہ کیا جواب دے پھر اُس نے ہمت جُٹا کر کیا’’ امیّ جی۔۔! میرے پاس کچھ رقم تھی لیکن کل ہی میں نے کوچنگ سینٹر میں بہن کی فیس بھر دی _‘‘
کیا بہن کی فیس؟ ساس نے حیرانی سے پوچھا _۔
’’یہ سب کب سے چل رہا ہے؟
دیکھو! ہم نے تم سے کبھی حساب نہیں مانگا اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تم اپنی من مانی کرو _،، اس گھر میں یہ سب نہیں چلے گا، ‘‘۔
کیوں بیٹیوں کو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ اپنی کمائی میں سے والدین کی معاشی تنگدستی میں مدد کر سکے؟ عالیہ نے دھیمے لہجے میں کہا تو ساس بولی” دیکھو بیٹی ۔۔! جب بیٹی کو گھر سے رخصت کیا جاتا ہے تو مائیکے کے تئیں اُس کی ذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں _‘‘۔
ممی جی۔۔۔! یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں جو آپ کے زمانے میں رائج ہوئی تھیں، آج ماڈرن دور ہے، آج وہ رسمیں نہیں چلتیں _،،
دیکھو۔۔۔۔! اس گھر میں رہنا ہے تو ان اصولوں پر عمل کرنا پڑے گا، ورنہ … ! ساس نے اُس کے ذہن پر جیسا بھاری پتھر رکھ دیا ۔
لیکن ممیّ جی ۔۔۔! میں نے شادی سے پہلے ہی راشد کو یہ صاف صاف بتادیا تھا کہ میں اپنی تنخواہ سے اپنے مائیکے والوں کی مدد کرتی رہوں گی _عالیہ نے کافی انکساری سے کہا _، وہ کون ہوتا ہے یہ فیصلہ کرنے وا لا؟ آنے دو راشد کو، کہہ کر وہ ایڑی فرش پرمارتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی تو عالیہ ساس کے اس رویئے کے بارے میں سوچتی رہی _ ۔
راشد کی لالچی ماں کو عالیہ کا اپنی ماں کو پیسے بھیجنا ناگوار گزرا۔ وہ سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد عالیہ کی تمام کمائی پر ان کا حق ہے۔ “جب تمہاری شادی ہو گئی تو اب تمہارے ماں باپ کا کیا حق بنتا ہے تمہاری تنخواہ پر؟”عالیہ کے کانوں میں ساس کی یہ آواز کافی دیر تک گونجتی رہی۔
عالیہ نے بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ اُس کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی والد ہ اور بہنوں کا خیال رکھے جس نے اسے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ مگر ساس کے دل میں اُس کی جگہ نہ بن سکی _۔ اب وہ اُٹھتے بیٹھتے عالیہ کو طعنے دینے لگی کہ صبح نکلتی ہے اور شام آتی ہے اس نے اس گھر کو ہوٹل سمجھ رکھا ہے۔ اس طرح اُس نے عالیہ کا جینا حرام کر دیا۔ ماں نے راشد کو اپنی معاشی مجبوریا ں بتاتے ہوئے کہا _” بیٹا ابھی ہم نے دو بیٹیوں کی شادی کرنی ہے اگر عالیہ اپنی کمائی ایسے ہی مائیکے والوں پر لٹاتی رہی تو سارا بار تجھ کو ہی تنہا اُٹھانا پڑے گا لہٰذا ابھی سے اس کی لگام کس کے رکھ _،،راشد بھی جذباتی ہوکر اپنی ماں کی باتوں میں آ گیا اور عالیہ پر دباؤ ڈالنے لگا کہ وہ اپنی تنخواہ سے کچھ بھی اپنے والدہ کو نہ دے _۔
اُس نے راشد کو اپنا وعدہ یاد دلایا تو راشد نے اُسے کہا کہ انسان کو اپنے وعدے ارادے وقت کی نزاکت دیکھ کر تبدیل کرنا پڑتے ہیں _۔
میری تنخواہ سے گھر کے اخرجات مشکل سے پورے ہوتے ہیں لہذا اب تمہیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی ہوگی _۔
عالیہ سوچنے لگی کہ یہ مرد ذات بھی کیا عجیب ہوتے ہیں ہمیشہ دوہری زندگی جیتے ہیں _۔
شادی سے پہلے راشد کا ایک چہرہ تھا اور آج ……؟
راشد کی باتیں سُن کر عالیہ کے ذہن پر جیسے بجلی سی کڑکی۔،،
عالیہ کے دل میں غم اور رنج بڑھتا گیا اب اُس کے سامنے دوہی راستے تھےیا تو وہ اپنی والدہ کا ساتھ دے اور اپنی عزت نفس کو بچائے یا پھر اپنی ساس اور شوہر کی بات مانے اور مائیکے والوں کو نظر انداز کرے _ ۔
آخر عالیہ کے دل میں مائیکےکی محبت غالب آ گئی اور اُس نے اپنے شوہر سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
“راشد، میری والدہ نے مجھے ماں اور باپ بن کر پالا پوسا ہے، پڑھا لکھا کر اس مقام تک پہنچایا ہے۔ میں ان کی مدد کیے بغیر نہیں رہ سکتی ابھی اُس پر دوجوان بیٹیوں کی ذمہ داری ہے ‘‘عالیہ نے نرمی سے کہا۔،،
“لیکن عالیہ، تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اب تمہاری ذمہ داری ہمارے گھر کے تئیں ہے۔میں نے بھی دو بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں‘‘ راشد نے جواب دیا۔
“راشد، میں اس بات کو سمجھتی ہوں، لیکن یہ بھی میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے والدہ اور بہنوں کا خیال رکھوں۔ کیا تم نہیں سمجھ سکتے؟” عالیہ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔
راشد کچھ لمحوں کے لیے خاموش رہا، پھر بولا،
“مجھے معلوم ہے کہ تم پر تمہاری والدہ کا حق ہے، لیکن میری ماں کی بات بھی صحیح ہے۔اس گھر میں ماں کا ہی حکم چلتا ہے _میں اُن کا حکم ٹال نہیں سکتا ‘‘۔
عالیہ کو اندازہ ہو گیا کہ راشد کبھی بھی اس بات کو نہیں سمجھے گا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ مزید اس طعن و تشنیع کا سامنا نہیں کرے گی۔
ایک دن، جب راشد اور اُس کی ماں نے عالیہ کو دوبارہ پیسوں کے معاملے پر طعنے دیئے، تو عالیہ نے اپنی والدہ کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا اور اپنا سامان باندھنا شروع کیا۔ اتنے میں راشد دفتر سے لوٹا تو کمرے میں بکھرا سامان دیکھ کر بولا،
“عالیہ……! کہاں جا رہی ہوتم ؟”
دیکھو راشد ۔۔۔۔! میں نے ہر طرح سے کوشش کی کہ ہمارا گھر ٹوٹنے سے بچ جائے لیکن تمہاری ماں نہیں چاہتی کہ اُسکے بیٹے کا گھر بسے‘‘،، عالیہ نے سوٹ کیس بند کرتے ہوئے کہا۔،،
راشد ….! ایک بار خود کو میری جگہ رکھ کر دیکھو، اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ ‘‘عالیہ نے بڑی حلیمی سے پوچھا۔
’’عالیہ ۔۔۔! میرا فیصلہ اٹل ہے _ میں تمہارا مجازی خدا ہوں میرا حکم ماننا تمہارا فرض ہے _‘‘ کہتے ہوئے اُس کا چہرہ سُرخ ہو گیا _۔
’’تم مردوں کی ذات ہی ایسی ہے، پہلے عورت کو سبز باغ دکھاتے ہو بعد میں اپنی خصلت ‘‘۔
عالیہ نے اپنا سامان سمیٹتےہوئے کہا _۔
“میں مائیکے جا رہی ہوں۔ جب تک تمہاری اور تمہاری ماں کی سوچ میں تبدیلی نہیں آتی، میں یہاں نہیں رہ سکتی۔” عالیہ نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ ،
اچھا تو اب تم مجھ سے زبان درازی کررہی ہو؟
میں نے کیا غلط کہا۔ _ مجازی خدا ہو تو کیا تم مجھے اسی دباؤ میں رکھ کر گیہوں کی طرح پیستے رہو گے _ آخر میں بھی انسان ہوں. ۔۔۔۔۔۔!
میرے بھی جذبات ہیں….!
میری بھی خوشیاں ہیں…..!
میرے بھی خواب……..!
میں نے تمہاری محبت بھری باتوں میں آکر اپنا سب کچھ تمہارے سپرد کردیا ،تمہیں وہ سب نہیں دکھائی دیتا، تمہیں صرف میری تنخواہ دکھائی دیتی ہے ۔‘‘ عالیہ نے جل بھن کر کہا تو راشد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اُس نے ایک زوردار تھپڑ عالیہ کو رسید کرتے ہوئے کہا،’’ دفع ہوجاؤ یہاں سے مجھے پھر کبھی اپنی شکل مت دکھانا ، کرتی رہو ماں کی خدمت‘‘ کہہ کر راشد کمرے سے نکل گیا اور عالیہ گال کو سہلاتی رہ گئی _۔
مائیکے پہنچ کر عالیہ نے کئی روز تک راشد کے فون کا انتظار کیا ، وہ سوچتی تھی یہ وقتی غُصہ تھا کچھ روز بعد ضرور راشد اپنے کئے پر پچھتا کر اُسے لینے آئے گا، اُس کا فون تو نہیں آیاالبتہ طلاق کے کاغذات بذریعہ ڈاک پہنچ گئے ۔
اس کا دل، جس میں ذرا سا بال تھا، آج پوری طرح ٹوٹ کر چور چور ہوگیا۔ _اُس دن اُس نے جی بھر کے رویا۔ وہ سوچنے لگی۔ _اتنی تعلیم کے بعد جو ملازمت اُس نے حاصل تھی وہی نوکری آج اُس کے گھر کے بکھرنے کا سبب بن گئی۔ اب اُسے اس گھر میں پورے دوسال ہوچکے تھے لیکن راشد کی باتیں اس کے ذہن میں بازگشت کررہی تھیں _۔
“عالیہ ….! مجھے تم پر فخر ہے کہ آج کے اس مادیت پرست دور میں بھی تم جیسی بیٹی ہے جسے اپنی والدین کی ذمہ داری کا احساس ہے _ مجھے تم سے غرض ہے تمہاری کمائی سے نہیں”
دفعتًا اُس کے پیر میں کوئی کانٹا سا چُھبہ گیا۔ اُس نے غور سے دیکھا ایک چھوٹی سی چمکیلی مچھلی اُس کی ایڑی کا اضافی گوشت نوچ رہی تھی۔،،
���
آزاد بستی نٹی پورہ ویسٹ ،سرینگر
موبائل نمبر؛9419463487