خصوصی پوزیشن کی جڑیں کاٹنے والے اپنے ہی لوگ ، 2015کے بعد نوجوانوں کے کیسوں کا جائزہ لیا جایگا
پٹن(بارہمولہ )// نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ انکی پارٹی 1953 کی آئینی پوزیشن بحال کرنے کا مطالبہ کرتی آئی ہے اور یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بی جے پی ، آر ایس ایس اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔عمر نے اعلان کیا کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت آنے کی صورت پی ایس اے اور ایس آر او 202کو ہٹانے کے علاوہ 2015کے بعد نوجوانوں کیخلاف دائر کئے گئے کیسوں کا جائزہ لیکر معاف کیا جائیگا۔
۔1953کی پوزیشن
پٹن میں انتخابی جلسہ اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’ہماری پہنچان، شناخت اور انفرادیت کو مٹانے کی مذموم سازشیں ہورہی ہیں، ایک کے بعد ایک حملے ہورہے ہیں، پہلے ارون جیٹلی نے دفعہ35اے اور دفعہ370کو کمزور جتلایا پھر امت شاہ نے 2020تک ان دفعات کو ختم کرنے کی بات کی اور کل وزیر اعظم کو میری وہ تقریر پسند نہیں آئی(جس میں،میں نے صدرِ ریاست اور وزیر اعظم کی بحالی کی بات کی تھی)۔عمر نے وزیر اعظم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’مودی صاحب ہم نے کچھ نیا نہیں کہا، آپ اس ملک کی تاریخ پڑھیں، کن حالات میں جموںوکشمیر اس ملک کا حصہ بنا، جب الحاق پر دستخط ہوا اُس وقت مہاراجہ ہری سنگھ نے کیا نقشہ کھینچا تھا، جس وزیر اعظم اور صدرِ ریاست کی میں نے بات کی ،یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ تو ہمارے آئین میں درج ہے، اُس آئین میں جس آئین پر آپ نے وزیر اعظم کا حلف لیا۔اُسی آئین میں درج ہے کہ جموں و کشمیر کا اپنا جھنڈا ہوگا اور اپنا آئین ہوگااور اُسی آئین کے تحت ہمارا اپنا صدرِ ریاست اور وزیر اعظم ہوگا، 1965تک تو یہی حال تھا، ہم کو ن سی نئی بات کررہے ہیں؟۔انکا کہنا تھا کہ جب وہ این ڈی اے سرکار میں وزیر تھے تب بھی نیشنل کا نفرنس کا یہی منشور رہا، اگر تب بات غلط نہیں تھی تو اب کیسے ہوئی۔
چاہے لڑنا بھی پڑے
عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’نیشنل کانفرنس نے بھی کل کی بات آسمان سے نہیں اُتاری، ہم نے 1996میں الیکشن لڑا کیونکہ اُس وقت کے وزیر اعظم نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ہماری اندرونی خودمختاری بحال کی جائیگی، اُس وقت وہی وزیر اعظم تھے جس کی آپ (مودی) تعریفیں کرتے ہیں، اُس وقت نرسمہا رائو وزیر اعظم تھے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں وعدہ کیاتھا کہ آزادی سے کم آسمان بھی مانگ لو۔ کیا اٹل بہاری واجپائی نے نہیں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل ہمیں انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے میں ڈھونڈنا ہوگا؟‘‘عمرنے کہا ’’میں نے وہ کہا جو مجھ سے پہلے لیڈروں نے کہا اور میں نے وہی کہا جس پے ہم قائم و دائم ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم ان طاقتوں کو یہاں کامیاب نہیں ہونے دیں گے جو ہماری اندرونی خودمختاری ، ہماری شناخت اور پہنچان کو جڑ سے اُکھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں،ہم اس کی قطعی اجازت نہیں دیں گے ، چاہے ہم عدالت میں لڑنا پڑے، چاہئے ہمیں پارلیمنٹ میں لڑناپڑے یا پھر ہمیں سڑکوں پر کیوں نہ لڑنا پڑے، ہم مہاراشٹرا یا، یوپی یا بہار نہیں، ہم اڑیسہ یا آندھرا پردیش نہیں ہیں، ہم بنا کسی شرط کے ملک کے ساتھ گل نہیں ملے، ہمارے لیڈروں نے اُس وقت کچھ شرائط رکھیں۔
اپنے ہی لوگ دشمن
انہوں نے کہاکہ ’’ہمارے اپنے ہی لوگ اندر اندر سے خصوصی پوزیشن کی جڑیں کاٹنے میں بھاجپا اور آر ایس ایس کی معاونت کررہے ہیں، طرح طرح کے لباس اور روپ بدل کے عوام کے سامنے آتے ہیں،کبھی کہتے ہیں’ مودی صاحب میرا بڑا بھائی ہے‘، کبھی کہتے ہیں ’محبوبہ مفتی میری بہن ہے‘، حکومت رہنے تک محبوبہ مفتی بہن رہتی ہے حکومت جانے کے بعد تمام بُرائیاں اُس میں نظرآتیں ہیں، رشتے اچانک ختم، منتری بنے کیلئے رشتہ بن جاتا ہے محکمہ چھن جانے کے ساتھ ہی رشتہ بھی ختم ۔یہی لوگ یہاں موجودہ تباہی اور بربادی کی جڑ ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہاں کچھ لوگوں کی سیاست بائیکاٹ پر چلتی ہے، ووٹنگ کی شرح کم رہنے سے اُن کو فائدہ ملتا ہے لیکن بعد میں وہ اُن علاقوں کو نہیں پوچھتے جہاں بائیکاٹ ہوتا ہے، اس لئے عوام کو سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا چاہئے۔