جموں //دیوک دریا کے کنارے آباد 249گوجر کنبوں کو اجڑ جانے کا خوف ستارہاہے کیونکہ حکومت نے جموں پٹھانکوٹ شاہراہ پر واقع وجے پور کے رکھ بروٹیاں علاقے کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جموں کیلئے خالی کرنے کی ہدایت دی ہے ۔سانبہ کے رام نگر علاقے میں1980تک بلد ، چھجوال ، چک پرتھیال ، کجائل کرادا و دیگر علاقوں میں کئی گوجر کنبے آباد ہوگئے تھے جن سے تب حکومت نے یہ جگہ خالی کراکے یہاں مغربی پاکستانی کے مہاجرین کو زمین الاٹ کی تھی ۔ اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے ایک مقامی شخص نے بتایاکہ حکومت نے ان سے مناسب اراضی اور نقدی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیاتھا تاکہ ان کی آبادکاری پھر سے ہوسکے جس کے بعد طبقہ کے لوگ رام نگر کے دوسرے علاقے میں بین الاقوامی سرحد کے نزدیک چلے گئے تاہم حکومت کاوعدہ آج تک ایفا نہیںہوسکا۔اس نے مزید بتایاکہ1999میںکرگل جنگ کے دوران فوج نے انہیں یہ جگہ بھی خالی کرنے کا کہا اور بیشتر کنبے صرف جسم پر لگے کپڑے لیکر نکلنے پر مجبور ہوئے ۔اس کاکہناہے کہ جنگ کے بعد بھی انہیں واپس اپنی جگہ جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور اب ان کی زمین پر تار بندی لگادی گئی ہے ۔مقامی لوگوںنے الزام عائد کیاکہ حکومت کا بازآبادکاری کا منصوبہ فرضی ہے اور انتظامیہ انہیں یہاںسے جبراًنکل جانے کی دھمکیاں دے رہی ہے ۔ماضی میں دو بارہجرت کے زخم سہ چکے عالم حسین کاکہناہے کہ ان کے ساتھ اس سے پہلے بھی حکومتوں نے وعدہ خلافیاں کیں اور اب ایک بار پھر سے ایسا ہونے جارہاہے ۔انہوںنے کہاکہ حکومت کی طرف سے ہر ایک کنبہ کیلئے دس مرلہ اراضی ، مویشیوں کیلئے مشترکہ علاقہ ، ویٹرنری ڈسپنسری ، آنگن واڑی سنٹر ، مسجد ، کھیل کود کا میدان اور کمیونٹی ہال کی فراہمی کا وعدہ عملی طور پر ناقابل قبول ہے کیونکہ انہیں صرف مویشیوں کیلئے ہی اس سے زیادہ زمین چاہئے اور ساتھ ہی پانی کاذریعہ بھی ہوناچاہئے ۔انہوںنے کہاکہ اس کے ساتھ ہی گھوڑوں اور بھیڑ بکریوں کیلئے بھی جگہ چاہئے اور ان کی مانگ ہے کہ کم از کم ہر ایک کنبہ کو پانچ کنال اراضی فراہم کی جائے لیکن اس پر انتظامیہ کی طرف سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیاگیا ۔انہوںنے کہاکہ ماضی میں بھی دوبار ان سے وعدے کئے گئے لیکن ان کو ایفا نہیں کیاگیا اور اب انہیںکون اس بات کی ضمانت دے گا کہ ان کے بچے اجڑنے سے بچ جائیںگے ۔لوگوںنے الزام لگایاکہ وہ اس سلسلے میں حکمران اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کے پاس بھی گئے لیکن کوئی مدد کیلئے سامنے نہیں آیا ۔لعل حسین نامی شہری کاکہناہے کہ جب وہ مدد کیلئے گھر سے باہر جاتے ہیں تو انتظامیہ ان کی رہائشی جگہوں کو خالی کرانے کا منصوبہ بناتی ہے ،کیا اس طبقہ کے ساتھ ایسا سلوک کیاجاسکتاہے جس کو ملک کے وزیر اعظم نے بھی سب سے زیادہ حب الوطن اور ایماندار قرار دیاہے ۔ان کاکہناہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ، ماضی میںبھی ناانصافیاں ہوئیں اور اب بھی ایسا ہورہاہے ،اگرچہ گوجر بکروالوں کے نام سے مشاورتی بورڈ بھی قائم کیاگیاہے لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ملا البتہ کچھ لوگوں کی بازآبادکاری ضرور ہوئی ہے ۔انہوںنے بتایاکہ سانبہ سے تعلق رکھنے تین اشخاص گوجر بکروال بورڈ کے ممبران ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ بھی اپنی سیاسی جماعتوں کی زبان بولتے ہیں اور موجودہ حکمران اتحاد تو انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنارہاہے ۔ایک اور شہری شمس دین کاکہناہے کہ جب وہ اس جنگل میں آباد ہوئے تو کسی نے یہ نہیں سوچاتھا کہ اس جگہ کی اس طرح سے ترقی ہوگی لیکن اب زمین مافیا اور یہاں تک کہ سرکارمیں شامل لوگ بھی اس اراضی کو للچائی ہوئی نگاہوںسے دیکھ رہے ہیں جس کا کل رقبہ 1600کنال ہے جبکہ ایمز کیلئے صرف 700کنال اراضی درکار ہے ۔انہوںنے کہاکہ وہ ایمز کے خلاف نہیں بلکہ اس ادارے کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس کا قیام ان کو جبری طور پر بے دخل کرنے کی قیمت پر نہیں ہوناچاہئے ۔ان کاکہناہے کہ اگر حکومت اس ادارے کی تعمیر کیلئے واقعی سنجیدہ ہے تو پھر اسے زمین کے اس حصے پر بھی بنایاجاسکتاہے جہاں کی اراضی پر کوئی جھگڑا نہیں ۔