بابا مرتمرتضیٰ
بیگم۔۔۔ بیگم۔۔۔ سن رہی ہو۔
کئ بار میں نے آپ سے یہ بات کرنی چاہی مگر ہر بار کچھ نہ کچھ ہوجاتا ہے اور ہماری بات پوری ہونے سے رہ جاتی ہے۔ ۔۔۔زینب کا شوہر زینب سے اکیلے میں کہہ رہا تھا۔ زینب اس وقت کپڑوں کی استری کرنے میں مشغول تھی لیکن بڑے ادب سے جواب میں کہا کہ ایسی کونسی بات ہے جو آپ مجھ سے اکیلے میں ہی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتی ہوں کہ آپ کو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔ آپ تو میرے سرتاج ہیں اور پورے کنبے کے سربراہ۔ آپ جو بھی کرینگے گھر کی بقاء اور سکھ شانتی کے لئے ہی کرینگے۔
ارے زینب۔۔۔۔ کوئی عام سی بات ہوتی تو شاید میں آپکو تکلیف نہ دیتا۔ دراصل جو بات بہت عرصے سے میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں وہ ایک خاص اور نازک سی بات ہے جسمیں مجھے آپ کی رائے اور آپ کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اچھا!۔۔۔ تو ایسی کیا بات ہے جو اتنی خاص اور نازک ہے، زینب نے اپنے شوہر سے اب بے چین ہوکر کہا کہ۔۔۔۔ جلدی سے کہہ دیجئے گا۔
میں سننے کے لئے بے قرار ہو رہی ہوں۔۔۔ بے قرار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بیگم صاحبہ۔۔۔ دراصل میں آپ سے بیٹی ناہیدہ کی بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔وہ اب بڑی ہو چکی ہے اور کافی بالغ اور سمجھدار بھی۔۔۔اسکی شادی کی فکر مجھے ستارہی ہے۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک اچھے سے گھر کا ایک اچھا سا لڑکا دیکھ کر ناہیدہ کی شادی کریں۔ ارے واہ! یہ تو آپ نے میرے منہ سے جیسے میری ہی بات چھین لی۔ زینب جواب میں بولی۔ میں بھی کب سے اس بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتی تھی مگر پھر کہنے سے رہ جاتی تھی۔۔۔اب آپ نے خود ہی یہ بات اٹھا کر میری مشکل آسان کردی ۔۔۔خیر… رب جو بھی کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے۔۔کیوں نہ اس بارے میں ناہیدہ سے بھی بات کی جائے ۔۔۔جی ۔۔۔ وہی تو میں آپ سے کہنے والا تھا۔۔ آپ تو اسکی ماں ہو…بہتر ہوگا کہ اگر آپ ہی اس سے جاکر یہ بات کریں تاکہ اسکی من مرضی کا پتہ بھی چلے اور ہمارے لئے یہ کام آسان بھی ہو جائے۔ٹھیک ہے میرے سرتاج۔۔۔ میں آج ہی موقع دیکھ کر اپنی جان ناہیدہ سے یہ بات اٹھائوں گی۔ اسی بیچ زینب کے شوہر ‘گلزار احمد کو اپنے صاحب کا فون آجاتا ہے۔ گلزار احمد بینک میں ایک برانچ منیجر کے عہدے پر فائض ہیں۔انکے دو بچے ہیں بیٹی ناہیدہ اور بیٹا عفنان۔۔۔ ناہیدہ جو کہ بالغ تھی، اسکی شادی کی فکر کو لیکر اب دونوں میاں بیوی پریشان ہو رہے تھے۔
فون پر بات ختم کرنے کے ساتھ ہی گلزار احمد زینب سے کہہ رہا ہے کہ وہ بازار کسی کام سے جارہا ہے اگر گھر میں کسی چیز کی ضرورت ہے تو کہہ دیجئے گا۔ اس پر زینب بولتی ہے کہ گھر میں سبھی ضرورت کے سامان موجود ہیں ہاں مگر وہاں سے لخت جگر عفنان کے لئے مکھن اور انڈے لے آنا۔ وہ ختم ہونے کو آرہے ہیں۔ جی ٹھیک ہے ۔۔۔میں لے آتا ہوں اور یہ کہہ کر گلزار احمد وہاں سے بازار کے لئے نکل جاتا ہے۔
اب زینب کے من میں یہ سوال بار بار گردش کرتا ہے کہ بیٹی ناہیدہ سے کیسے اسکی شادی کی بات اٹھاؤں۔ زینب یہی سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دستک کے ساتھ ہی ناہیدہ کمرے میں امی جی کو کھوجتے ہوے داخل ہو جاتی ہے۔ امی جی آپ یہاں ہو۔۔ میں کب سے آپ کو کھوج رہی ہوں۔ چائے تیار ہے آجاو چائے پیتے ہیں۔۔۔ ابو جی بھی کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔آج تو اتوار ہے ، سوچا کہ آج سب مل کر ایک ساتھ چائے پی لینگے ۔۔۔ میں نے عفنان کو بھی اسکے کمرے سے بلایا۔ ٹھیک ہے بیٹی چلو چائے پیتے ہیں ۔آپ کے ابو جی بھی آتے ہی ہونگے وہ بازار کسی کام سے گئے ہیں۔۔چلو وہ بھی تب تک آینگے۔
اب باورچی خانے میں سب لوگ چائے کے لئے اکٹھے ہوئے، ناہیدہ نے سب کو چائے کی پیالی ہاتھ میں تھما دی اور گھر کی بنائی ہوئی روٹی بھی سامنے پلیٹ پر رکھ دی اور اسی بیچ ابو بھی باورچی خانے میں داخل ہوئے ۔ مکھن اور انڈے زینب کے ہاتھ میں دیکر بیٹھے اور سب کے ساتھ چائے پینے لگے ۔عفنان کے موبائیل سے عفنان کی ایکسکرشن پر لی گئی تصوریں دیکھنے لگے اور چائے ختم ہونے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اب ماں بیٹی باورچی خانے میں چائے پینے میں محو ہوئیں۔ اور زینب نے موقع پاکر ناہیدہ کو پاس بلا کر کہا۔۔ کہ میں بھی ایک دن آپ کو اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ وہ دن جلد آئے تاکہ میرے اور آپکے ابو کے کندھوں سے اس ذمہ داری کا بوجھ اُتر جائے۔ ہم دونوں آپ کی شادی کو لیکر بڑے متفکر ہورہے ہیں ۔ ناہیدہ شادی کی بات سن کر شرمانے لگی۔ اپنا چہرہ دوسری طرف کرکے کچھ نہ بولی مگر زینب نے پھر شادی کی بات چھیڑتے ہوے مزید کہا کہ آپ کے ابو نے اندر اندر سے ساری تیاریاں کر رکھی ہیں۔ ایک بیٹی کو جو چاہئے وہ سب کچھ لا رکھا ہے۔ ناہیدہ ادب سے واپس مخاطب ہوئی ۔۔۔تیاریاں کر رکھی ہیں۔۔۔! ایسی کونسی تیاری جو آپ کی بیٹی کو معلوم ہی نہیں۔۔۔؟ جی میری جان ناہیدہ۔۔۔ بس آپ سے اب آپ کی رائے لینا مطلوب ہے۔ کیا آپ کی نظر میں کوئی ایسا لڑکا ہے؟۔اگر ہے تو میں جاکر آپ کے ابو جی سے اسکے بارے میں بات کروں۔ نہیں۔۔۔نہیں امی جی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ مجھے کیوں شرمندہ کر رہی ہیں ۔ ایسی بات ہوتی تو آپ کو نہ پتہ ہوتی اور میں آپ سے نہ اظہار کرتی۔ آپ تو میری دوست اور ماں دونوں ہو، پھر اتنی بڑی بات بھلا آخر میں آپ سے کیسے چھپا لیتی۔۔۔ ناہیدہ جھٹ پٹ بولی۔۔۔اور ہاں شادی جب آپ چاہیں اور جہاں چاہیں وہیں کرونگی۔۔ جسکے گھر میں بڑے موجود ہو، یعنی امی ابو، وہ کیوں ایسی باتوں پر اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔ زینب کچھ کہتی کہ باہر سے گلزار احمد بھی باورچی خانے میں داخل ہو جاتے ہیں او ر زینب سے کہنے لگتے ہیں کہ ایسی کیا اہم بات ماں بیٹی چائے کی چسکیاں لیتے لیتے کرتی ہیں،تو زینب بولی کہ ناہیدہ بیٹی سے شادی کی بات کررہی تھی اور اس سے اسکی رائے جان رہی تھی۔ شکر ہے کہ جیسا اپنی بیٹی پہ گمان تھا وہ صحیح نکلا۔ اس نے تو وہ ذمہ داری بھی ہمارے پالے میں ہی ڈال دی، یعنی لڑکا اور گھر بھی ہم نے ہی دیکھنا ہے۔ یہ بات سن کر ناہیدہ کے ابو جی کا سینا چوڑھا ہوتا ہے اور سر فخر سے بلند بھی کیوں نہ ہو۔ والدین کے لئے وہ لمحہ واقعی فخر کا ہوتا ہے جب انکی اولاد ان کو شادیوں کے فیصلوں کا حق بھی اُن کو ہی دیتے ہیں۔ اب خوش ہوکر ناہیدہ کے ابو جی ناہیدہ کو پاس بٹھا کر کہتے ہیں۔ دیکھو میری جان، ناہیدہ میں نے سب کچھ آپ کے لئے پہلے ہی لاکر رکھ دیا ہے۔آپ کے لئے سب سے بہترین سونا، چاندی، کپڑے ۔۔۔ مطلب سب کچھ، بس اب ایک اچھے گھر کے لڑکے کا انتخاب باقی رہ گیا ہے۔ آپ کی شادی ہم بڑے دھوم دھام سے کرینگے اور وہ کی شادی یاد گار رہنی چاہئے۔ناہیدہ شرمندگی میں امی ابو کی ساری باتیں سن رہی تھی اور اُسکے من میں کئی سوال جنم لیتے گئے۔۔۔ وہ بڑی ہی مضطرب ہوئی اور ہمت کرکے ابوجی سے کہنے لگی۔ابو کیا میں آپ سے اپنی رائے بانٹ سکتی ہوں۔۔۔ابو اور امی ہم آواز ہوکر کہنے لگے، کیوں نہیں۔۔۔ ہم آپ سے آپ کی راے ہی تو لینا چاہتے ہیں ۔ آپ بلا جھجک اپنی بات سامنے رکھو۔ ابو جی ۔۔۔ ذرا غور کرو۔۔۔ امی جی ابھی بھی اس گھر کی بہو کہلاتی ہے اور باہر گاوں والے اسکو اسکے گائوں کے نام سےجوڑ کر جانتے ہیں۔ مطلب۔۔ شہرچ(شہرکی)۔۔۔ شوپیانچ(شوپیاں کی)۔۔۔پلوامچ(پلوامہ کی)۔۔۔ اور جب ہم بھائی عفنان کی شادی کرکے بہو لائینگے تو امی جی پھر ساس بنے گی اور ایک عورت مالکن بس قبر میں بن جاتی ہے یعنی قبر کی مالکن،شرط اسمیں یہ ہے اگر اسکی ازدواجی زندگی کسی جھگڑے کے ساتھ ختم ہوئی تو۔ ایسے ہی ہر گھر میں ہر عورت کی یہی کہانی ہے اور ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔
آپ یہ کیسی باتیں کرتی ہو میری جان ناہیدہ۔۔۔امی بولی۔۔۔ زندگی کا یہی تو دستور ہے میری بیٹی۔ نہیں امی جی۔۔ایسا دستور ہم انسانوں نے بنایا ہے۔ بیٹے کو جنم لیتے ہی گھر کا وارث سمجھنا۔۔اسکی دیکھ بال کرنے میں کوئی کوتاہی نہ برتنا۔۔۔اسکی روٹی پر مکھن لگانے کے لئے فکر مند ہونا اور انڈے کھلا کر اور دودھ پلا کر پالنا پوسنا،وارث سمجھ کر ہی تو کیا جاتا ہے ۔یہ بھی گھر گھر کی کہانی ہے۔یہ سن کر ناہیدہ کے ابو جی بڑے حیرت زدہ ہوے کہ بیٹی آخر کہنا کیا چاہتی ہے ۔ وہ بولے ناہیدہ بیٹی آپ کہنا کیا چاہتی ہو میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔کہیں آپ عفنان کی ایسی پرورش کرنے سے ہم سے ناراض تو نہیں۔۔۔ماجرا کیا ہے آپ کھل کر بول دیجئے۔ ابو جی میں اپنے بھائی کے لئے برا کیسے سوچ سکتی ہوں۔۔۔ وہ تو میری مان ہے اور جان بھی ۔۔۔ میں تو اپنے ‘وجودہی کی بات کرتی ہوں کہ میرا وجود کیا ہے؟ بلکہ ایک عورت کا وجود کیا ہے؟۔
مجھے سونا چاندی دیکر آپ یہ سمجھ رہے ہوکہ میں ان چیزوں سے اپنا وجود بحال کرسکتی ہوں۔۔۔کیسے۔۔۔؟ بیٹی زندگی کی یہی ریت ہیں، یہ ایسے ہی چلتی آرہی ہے، ابو جی بولے۔ جی ہاں ابو جی وہی میں بھی کہہ رہی ہوں کہ اس ریت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ آپکے باپ کو اسکے باپ سے وراثت ملی، پھر آپکو اپکے باپ سے اور اب عفنان کو وراثت کا وارث سمجھا جا رہا ہے۔۔پھر میرے وجود کا کیا۔۔۔۔؟ کل جب آپ میری شادی کرینگے تو پھر اگر خدا نخواستہ میری اپنے شوہر سے ان بن ہوئی اور خدا نہ کرے میرا طلاق ہوتا ہے تو میں کہاں رہوں گئی ۔ ارے بیٹی یہ آپ کیسی باتیں کرنے لگی ہو۔۔۔ہم تو زندہ ہیں ابھی، آپ کے امی اور ابو۔ خدا آپ دونوں کو اور دنیا میں تمام لوگوں کے ماں باپ کو سلامت رکھے مگر زندگی نے آج تک کس سے وفا کی ہے۔۔میرے ابو جی۔۔۔ ناہیدہ بولی ، اور مزید اگر آپ نہ رہے اور ایسی نوبت آئی پھر میں کہاں رہوں ۔۔۔کونسا دروازہ کھٹ کھٹائوں۔۔۔کس کے در پر اپنا سایہ ڈھونڈ کر بچی کھچی زندگی گزاروں، وہ بھی ایک عورت ہوکر۔ یہ سن کر امی ابو دونوں جذباتی ہو جاتے ہیں اور انکے آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب اُمڈ کر آتا ہے ، جیسے انکے سامنے زینب ایک ہونے والی دلہن نہیں بلکہ زینب کا تابوت ہے۔ وہ دونوں کھڑے ہوکر بات کی سنجیدگی سے واقف ہوتے ہیں اور زینب سے اسکے دل کی راہ رکھنے پر اور اسکو پورا کرنے کے واعدہ بند ہو جاتے ہیں۔ بیٹی زینب آپ کھل کر بولو آپ کی کیا خواہش ہے۔۔۔اور آپ اصل میں کیا چاہتی ہیں۔۔۔۔ابو اگر آپ مجھے سونا، چاندی، کپڑے اور زیورات کم ہی دوگے تو کوئی بات نہیں مگر مجھے میرے امی جی اور ابوجی کے گھر میں ایک کمرہ ضرور چاہئے جسکی میں مالکن کہلاوں گی اور وہ کمرہ میرا ‘وجود ہوگا اور میری وراثت بھی اور آفت میں وہ کمرہ میرے لئے راحت کا ذریعہ اور خوشی کے دنوں میں میرا اپنا آشیانہ ہو۔۔۔خاص کر میرے بچپن کی اور ماں باپ کی یادوں کا ایک یادگار محل۔۔۔بس یہی میری خواہش ہے۔۔َاور میں سمجھ رہی ہوں کہ یہی کمرہ میرے وجود کی پہچان بھی ہوگی۔۔۔
امی ابو یہ بات سن کر اپنے کئے ہوئے وعدے کو اور ناہیدہ کی جائز خواہش کو پورا کرنے کے لئے عفنان کو بلا کر ناہیدہ کی شادی سے پہلے ہی گھر کا ایک خوبصورت کمرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسکے نام کرتے ہیں۔
���
رے کاپرن شوپیان
موبائل نمبر؛7889379873