ابھی ہم مجہ گنڈ کے المیہ ہی سے نہیں اُبھر پائے تھے کہ 15دسمبر کے روز سرنو پلوامہ میں فورسز کے ہاتھوں ایک اور قیامت برپاکی گئی جس میں تین عسکریت پسندوں کے علاوہ سات عام شہریوںکی ہلاکت خیز خبر نے سارے کشمیرکو ایک با ر پھر آہ و فغاں اور احتجاج کی اندوہناک لہروں میں ڈبو کر رکھ دیا۔احتجاج اور ہڑتال ہوئی ۔ سبھی لوگوںنے جی جان سے اس واقعہ کے تئیں اپنی گہری ہمدردی بھی جتائی اور افسوس بھی ۔سچ تو یہ ہے کہ کشمیر میں لگ بھگ سبھی گھرانوںنے ان تمام بچوں کی ہلاکتوں کو اپنے ہی گھرکا المیہ محسوس کیا ۔اس کے علاوہ حریت اور اقتدار نواز سیاسی حلقوں نے بھی شدید افسوس اور مذمتی بیانات درج کئے ۔ وادی سے باہرچناب میں بھی اس واقعہ کے خلاف ہڑتال ہوئی۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر بھی کئی بااثر تنظیموں نے اس واقعہ کے تئیں اپنی شدید ناراضگی جتائی جبکہ گورنر انتظامیہ نے بھی اس واقعہ پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے ۔مزاحمتی قیادت نے بھی پہلی با ر کچھ نیا پن دکھا کر بادامی باغ چلو کی کال دی تھی جو حسب توقع فورسز نے ناکام تو بنادی البتہ اس پر فوجی ترجمان کو کچھ مرچیں ضرور لگی تھیں کیونکہ اس سے انہیں لگا کہ حریت بھارتی افواج کو ایک قاتلانہ غاصب فورسز کے روپ میں پیش کررہی ہے جبکہ پولیس سربراہ نے حسب سابق اپنی دھمکی آمیز نصیحت میں بتایا کہ لوگوں کو تصادم آرائیوں کی جگہوں کی طرف رخ کرنے سے پر ہیز کرنا چاہئے ۔مطلب پھر وہی ’’وہاں جائو گے تو مارے جائو گے‘‘۔ان سب بیانات سے لگتا ہے کہ کم وبیش ساراآسمان فوج کی مذمت میں یکجا ہوا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’آگے ایسا نہیں ہوگا‘‘۔عام لوگ اب نہیں مارے جائیں گے ۔لیکن کیا ایسا ہوگا؟کیا سرنو ایسا آخری واقعہ ثابت ہوگا؟ ہم سبھی کا دل ایسا ہی کہتا ہے کہ خدا کر ے ایسا ہی ہو۔سرنو اس نوعیت کے قتل عاموں کاآخری واقعہ ثابت ہو۔لیکن بدقسمتی سے حالات و واقعات بتا رہے ہیںکہ ایسے واقعات کم و بیش پیش آتے رہیں گے کیونکہ متحارب فوج اپنے پورے لائو لشکر اور قانونی حد بندیوں سے آزاد ہوکر ملکی قیادت کی بھرپور آشیرواد اور حوصلہ افزائی سے میدان میں موجود ہے اور ’’فائنل رائونڈ‘‘کھیل رہی ہے ۔کم از کم یہ ان کا خیال ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی کے ابتدا ء میں جب کشمیر کے گلی گلی ،گائوں گائوں قتل عاموںکی وارداتوں سے لبریز تھے تو اُن دنوں مرکزی وزیر داخلہ یہاں کئی بار آئے اور انہوں نے بڑی نرمی سے کہا کہ فورسز کو ہدایت دی جاچکی ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں اور قتل عاموںسے باز رہیں۔مجھ جیسے نو آموز کالم نگار اس وقت یہ سمجھ بیٹھے کہ اب واقعی فورسز کے رویہ میں تبدیلی رونما ہوگی کیونکہ وزیر داخلہ بیان دے چکے ہیں لیکن عملاً ایسا کچھ بھی نہیں ہوابلکہ قتل عاموں کاپر نالہ وہیںسے بہتا رہاجبکہ راجیش پائلٹ دراصل اُس وقت کشت و خون کی ایک نئی صف بندی اخوان کے نام پر کررہے تھے جو پھر کامیاب بھی ہوئی اور اس کوبعد میں سُلفا اور ڈلفا کے نام سے آسام میں دہرایا گیا۔اس کے بعد نکسل وادی علاقوںمیں۔یوں وزیر داخلہ کے دکھانے کے نرم دانت الگ تھے اور کھانے کے خونی دانت بالکل چھپے ہوئے تھے ۔اُن سے پہلے یہاں ایک ’’نرس‘‘بطورگورنر آچکی تھی۔یہ تھے جگموہن ،جس نے اپنی پہلی تقریر میں کہاتھا کہ وہ بطور نرس کام کریں گے اور ا سکے فوراًبعد قتل عاموں کاسلسلہ شروع ہوا ۔یوں بعد میں بھی دلّی سے اس طرح کے بیانات آتے رہے لیکن عملاً پالیسی ایک ہی تھی۔
مسئلہ پھر وہی کہ آیا اس قدر احتجا ج اور واویلا سے اس طرح کے لرزہ خیز خونین واقعات رُک پائیں گے؟ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ،اس کو برا بھلا جتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ بدترین نوعیت کی برائی ہے لیکن یہ سب کچھ خلاء میں نہیںہورہا ہے اور نہ ایسے واقعات اتفاقی ہیں۔یہ سب کچھ ایک نظریاتی ،سیاسی ،قانونی اور فوجی ماحول میں انجام پارہا ہے جہاں ایک فریق اپنے آپ کو ملکی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر برسر جنگ قرار دے چکا ہے ۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بار بار کہا کہ اگر سرحد پر پاکستانی فوج ایک گولی چلاتی ہے تو ہم پھر گولیوںکا حساب نہیں رکھتے ہیں۔سرحد پر یہ پالیسی بھلے ہی کامیاب نہ ہولیکن کشمیر کے قریہ قریہ میں عسکریت پسند گولیاں چلاتے ہیںتو جواباً گولیوں اور مارٹر شیلوں کا حساب نہ رکھنا ملکی فوجی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے ۔اس لئے کیا اس طرح کے غیر انسانی طرز عمل کو محض واویلا ہی سے روکنا ممکن ہے ؟ ۔
اس کو روکنے کا بظاہر معقول جواب طاقت ہے ۔ظلم جب طاقت کے بل پر انجام دیا جارہا ہوتو اس کو طاقت سے ہی روکا جاتا ہے لیکن طاقت اس قوم کے پاس نہیںہے ۔موجودہ عسکریت کسی بھی اعتبار سے طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا معاملہ نہیں ہے ۔چونکہ دلّی اس جنگ میں ایک فریق ہے اور مزاحمتی قیادت بھی خود کو ایک فریق تصورکرتی ہے تو واویلا کی بجائے بہتر یہ تھا کہ کم ازکم چند بنیادی باتوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ یا مذاکرات ممکن ہوئے ہوتے ۔ہمارے مقدمات ملکی عدالتوں میںہیں۔بہت سارا نظام ریاست کے اداروں کے ساتھ چلتا ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں تھا کہ اگر آج تک دلّی کے ساتھ کم سے کم ایسے لرزہ خیز مظالم سے روکنے ، قیدیوں کی رہائی ،جائیداد کی تباہی جیسے معاملات پر کوئی سمجھوتہ ہوجاتا۔اس سے مسئلہ کشمیر حل نہیں کیاجاسکتالیکن نسل کشی کو روکا جاسکتا تھاجو واویلا مچانے سے ممکن نہیں۔اس طرح کے بہت سارے مواقع حریت کو دستیاب ہوئے جب بھارتی پارلیمنٹ کے ارکان تک اُن کے دروازوں پر آئے لیکن سخت موقف کو کھرا ثابت کرنے کیلئے دروازہ بند رکھا گیا۔
کشمیر جیسے دیرینہ اور پیچیدہ معاملے کوکبھی بھی محض کسی ایک فریق کی مرضی کے مطابق حل نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی لمحہ میں۔اس میں سالہا سال لگ سکتے ہیںاور وہ بھی تب جب کوئی ٹھوس سیاسی عمل شرو ع ہو۔لیکن تب تک نسل کشی کے دروازے کھلے نہیںرکھے جاسکتے ہیںاور نہ محض ایک ظالم قوم کو شرم دلانے سے روکا جاسکتا ہے ۔ایسا دنیا میں دستور رہا ہے کہ ایک بڑے مسئلہ کو پوری طرح حل کرنے تک نبیادی انسانی حقوق اور عام لوگوں کے جان ومال کو تحفظ تو دیا جاسکتا ہے۔بھارت جیسی ریاست محض ترس کھا کر رحم کی پالیسی نہیں اپنا سکتی ہے اور نہ واویلا انہیں روک سکتا ہے اور نہ طاقت جو ہے ہی نہیں۔صرف ٹھوس اور بنیادی نوعیت کے مذاکرات ہی سے مسلمان نوجوانوں کی نسل کشی کو روکنے کی کوشش ممکن ہے۔
……………………..
بشکریہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر