شیخ بلال
ابھی بھی وقت ہے،اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اپنی تربیت میں بہتری لائیںاور اپنے گھروں میں ماحول پر نظرثانی کریں۔ اپنے بچوں کی بہترین پرورش کریں اور اپنے مستقبل اور بڑھاپے کو پرسکون بنائیں ۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ اپنے اس فرض کو بخوبی انجام دیں اور اپنی دنیا و آخرت دونوں سنواریں۔ اپنے بچوں کو مستقبل کے بہترین انسان، ایک اچھا ذمہ دار شہری اور فرمانبردار اولاد بنائیں۔ میں یہاںبچوں کے تربیت کے سلسلے میں چند باتیں عرض کرتا چلوں :
٭ بچوں کی تربیت تربیت کرنے میں نہ تو اُنہیں زیادہ لاڈ پیار دے کر سر پہ چڑھائیں اور نہ ہی اتنی سختی کریں کہ بچے نفسیاتی مریض بن جائیں۔
٭ اپنا رویہ ایسا رکھیں کہ جب بھی آپ کی اولاد آپ سے بات کرنا چاہے تو وہ بے جھجھک کہے، انہیں اسی انداز میں جواب دیں جس کی وہ توقع رکھتے ہیں، نہ زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور نہ ہی زیادہ بے تکلف ہوجائیں ۔
٭ بچوں کے ساتھ بات کرتے وقت یا ان کے ساتھ بیٹھک کے وقت جھوٹ، گالم گلوچ، غیبت ، بد زبانی، بد تمیزی، بد تہذیبی سے پرہیز کریں ۔
٭ بچوں کو اپنے رشتہ داروں کے بارے میں وضاحت سے بتائیں، چچا، پھوپھی، خالہ وغیرہ کون کہاں رہتا ہے کیا کرتے ہیں وغیر،ہ سب کچھ اور کبھی بھی بچوں کے سامنے رشتہ داروں کی غیبت یا بُرا بھلا نہ کہیں، ایسا کرنے سے بچوں کے ذہن میں ضد اور دشمنی پنپتی ہے ۔
٭ بچوں کے سامنے اپنے سے بڑوں کا ادب، احترام کریں آپ کو دیکھ کر بچے بھی ایسے ہی نقل کریں گے ۔
٭ اپنے بچوں کو ضرورت سے زیادہ تحفظ نہ دیں اس سے وہ غیر ذمہ دار ہوسکتے ہیں، انہیں ذمہ دار اور فیصلہ ساز بنائیں ، گھر کے کاموں میں ان سے مشورہ لیں اور ان کو بھی کام میں شامل کریں ۔
٭ بچوں کو اپنے اساتذہ، ان سے بڑے بچوں، ان کے دوستوں، عورتوں کی عزت اور احترام کرنا سکھائیں اور خود بھی ایسا کرکے دکھائیں ۔
٭ اپنے بچوں کے ایک ایسے سربراہ بنیں کہ اس کے اسکول، اس کے دوست، اس کے ساتھیوں کی بھی خبر رکھیں تاکہ آپ انہیں اچھے اوربُرے کی تمیز سمجھا سکیں، خود بھی ایسی محفلوں میں رہیں جس کا ایک مثبت اور بہترین اثر آپ کے گھر اور اولاد پر پڑے ۔
٭ بچے سے خطا ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، غلطی تو بڑوں سے بھی ہوجاتی ہے۔ جب بھی بچہ غلطی کرے تو اسے میانہ روی سے سمجھائیں نہ زیادہ تلخ ہوں اور نہ زیادہ بے تکلف ۔ آپ کو اس بات سے بخوبی باخبر ہونا چاہیے کہ کب نصیحت کارگر ہوگی اور کب سزا دینی ہوگی۔ جہاں جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے۔
٭ بچوں کو غلطی پر سزا بھی دیں اور کامیابی پر حوصلہ افزائی بھی کریں۔ بچے کو غلطی پر سزا، ڈانٹ ڈپٹ تنہائی میں کریں اور حوصلہ افزائی سب کے سامنے تاکہ بچہ احساس کمتری کا شکار نہ ہو اور حوصلہ افزائی سے وہ خوش ہوگا اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے گا ۔
٭ ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، بچہ غلطی کرے تو جانچ کرلیں کہ ایسی غلطی بچے سے کیوں سرزد ہوئی، غلطی سے، بُرے کاموں سے روکنے کے لئے بچوں کو اس غلطی کا احساس دلائیں، اس کے علاوہ اچھائی اور اچھے انسانوں کی تعریف کریں ۔
٭کبھی بھی بچوں کے سامنے کسی بھی طرح کا نشہ نہ کریں، انہیں دکان پر نشہ آور چیزیں خریدنے کے لئے نہ بھیجیں، نشئی مہمان کے سامنے بھی اپنے بچوں کو نہ رکھیں ۔
٭ آج کل کا سب سے بڑا فتنہ جو کہ ایک بہترین نعمت تھا لیکن شیطانی ذہن نے اسے بھی فتنہ اور زحمت بنایا، جی ہاں! فون کی ہی بات کر رہا ہوں۔ فون کا استعمال بڑے ہی سلجھے انداز میں کریں، اپنے بچوں کے فون پر بھی نظر رکھیں، ان کی رازداری کا خیال رکھتے ہوئے ان کے فون پر نظر رکھیں، ان کو فون کا صحیح استعمال اور اس سے پیدا ہونے والے فتنوں کے بارے میں آگہی ضرور دیں ۔
٭ اپنے بچوں کو وقت دیں، آج کل کے اکثر والدین کے پاس اپنے بچوں کے لئے وقت ہی نہیں ہوتا، لیکن وقت نکالیں، اپنے بچوں کو وقت دیں، اُن کوسُنیں، اُن کی سنیں، اُنہیں سمجھیں، ان سے بات کریں انہیں اکیلا چھوڑ کربُرے ماحول اور بُری صحبت کے حوالے نہ کریں ۔ دھیان رکھیں کہ آپ کے بچے کس کو فون کرتے ہیں، کون کون ان کے دوست ہیں، ان کے دوستوں کی تربیت کیسی ہے، آپ کے بچے کہاں کہاں جاتے ہیں، اسکول کے اوقات کیا ہیں، کتنے بجے گھر آتے ہیں، اگر دیر ہوجاتی ہے تو کہاں رہتے ہیں اور کیوں دیر کرتے ہیں، وغیرہ ۔
اپنے بچوں میں اگر کوئی تبدیلی محسوس کریں، ان کے رویے میں ان کے مزاج میں توفوراً اس بارے میں بات کریں۔ بچے کے پاس کوئی نئی چیز دیکھیں، اُسے پوچھ گچھ کریں کہ کہاں سے آئی، کہاں سے لائی ہے وغیرہ ۔
٭ کوئی آپ کے بچے کی شکایت کرے تو جلد بازی میں نہ شکایت کرنے والے کو بُرا بھلا کہیں، نہ بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کریں اور کسی غلطی پر بچے کے سفارشی نہ بنیں، تحقیق کرکے فیصلہ کریں کہ کیا کرنا ہے ۔
٭ اپنی اولاد کو تکبر، کینہ، بغض، حسد، غیبت، جھوٹ وغیرہ سے دور رکھیں، خود بھی ان چیزوں سے بچیں اور اپنی اولاد کی بھی حفاظت کریں ۔
٭ بچوں کو دُنْیَوی تعلیم اور دنیا داری سکھانے کے علاوہ اِس طرف بھی توجہ کریں کہ اُس کے اخلاق، اس کا کردار، اس کے آداب بھی بلند ہوں ۔
٭ اپنے بچوں کو مفید اور فضول کاموں کا فرق بتائیں، جیسے انہیں سمجھائیں کہ مطالعہ کرنے کے کتنے فوائد ہیں، سیر و تفریح کے کیا کیا فوائد ہیں اس کے برعکس بے جا موبائل فون کا استعمال، فضول انٹرنیٹ کا استعمال صحت اور وقت دونوں کے لئے کتنا نقصان دہ ہوسکتا ہے ۔
الغرض اپنی اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ آخرت تو بہتر ہو، دنیا میں بھی سکون اور خوشی سے زندگی گزرے، اپنی اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ بڑھاپے میں پہنچ کر ان سے وفا ملے اور سکھ پہنچے، والدین کی تربیت ہی بچوں کو منشیات سے، بری عادات سے، بری صحبت سے دور رکھ سکتی ہے۔ والدین جیسی تربیت کریں گے ویسا ہی ان کے بڑھاپے میں ان کو سہارا ملے گا۔ بچوں کی تربیت میں کوتاہی، لیت و لعل اور کاہلی سے کام نہ لیں،جب بچوں کی تربیت میں خوب توجہ دی جائے تو والدین کی زندگی آسان ہوگی اور بچوں کی زندگی بھی کامیاب ۔ ورنہ خود بھی دُکھی رہیں گے اور اولاد بھی پریشان۔ اللہ تعالیٰ تمام والدین کو اپنی اولاد کی ایسی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُن کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کاذریعہ بنیں ۔ آمین
رابطہ۔6006796300
[email protected]