والدین کی ذمہ داریاں اور بچوں کی تربیت ! قسط ۔۱

شیخ بلال

پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر دو دل لرزانے والے پوسٹس، ایک تصویر اور ایک ویڈیو بڑی گردش کر رہے ہیں۔ ویسے تو آج کل سوشل میڈیا پر نقل کی جانے والی اکثر ویڈیوز، تصاویر وغیرہ یا تو فرضی ہوتی ہیں یا تو مصنوعی ذہانت والی ٹیکنالوجی سے بنائی جاتی ہیں، تصویر تو بہرحال مصنوعی ذہانت کی ہی تھی لیکن ویڈیو ہمارے شہر کی تھی ۔ تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ ایک شخص کی 8 اولادیں ہیں اور ایک بھی اولاد اسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے تیار نہیں، اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک جوان ایک عورت اور مرد کو اپنی چپل سے مار رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں مرد عورت اس جوان کے والدین ہیں۔ اس طرح کے بے شمار واقعات آئے روز سوشل میڈیا پر آتے رہتے ہیں ۔یہ واقعات توبس چند ایک ہی ہیں جو کسی کے کیمرے میں قید ہوتے ہیں یا کہیں رپورٹ ہوتے ہیں ، بے شمار ایسے واقعات بھی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوسکتے ۔ یہ ویڈیوز، یہ خبریں سچی ہیں یا جھوٹی، ان کے پیچھے کی کیا حقیقت ہے، اس بات کا فیصلہ صرف ایک پوسٹ دیکھ کر نہیں کیا جاسکتا، لیکن چند باتیں غور کرنے کی ضرور ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک اور خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ ہماری وادی میں اب اولڈ ایج ہومز کا رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے ۔

کسی بھی شخص کا جب نکاح ہوتا ہے تو اس کے بعد اس کی ایک ہی تمنا ہوتی ہے کہ اب بس اللہ تعالیٰ اولاد کی نعمت سے نوازے،بے شک اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اور والدین کے لیے مستقبل کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ (اولاد)رونق وبہار اور مستقبل کا قیمتی اثاثہ اور آرام و سکون کا باعث اُس وقت بنتی ہے جب ان کی بہترین سے بہترین تربیت کی جاتی ہے، زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے، اُن کی صحیح نشوونما کا خیال رکھا جاتا ہے، اُن کی دینی تربیت وپرداخت کو ضروری سمجھاجاتا ہےاوراُنہیں ایک بہترین ماحول میں پروان چڑھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

آج کے اکثروالدین تو بس اپنی اولاد کو نازو ادا کے ساتھ پالنے، اچھے سے اچھےکپڑے پہنانے ، اُن کو بہترین کھانے کھلانے ، دکھاوا اور تکبر کےتحت فضول خرچیاں کرنے اور انہیں بے جا آزادی دینے کو ہی اپنے بچوںکی بہترین پرورش سمجھ کر کئی اہم باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔جب ہم بچے کو ایک چھوٹا سا پودا سمجھیں اور یہ امید رکھیں کہ یہ بڑا ہوکر ایک تناور،سایہ دارو ثمر دار،درخت بن جائے، اور ہمارے لئے اطمینان و سکون کا باعث بنے تو اس کے لئے ہمیں اس پودے کی ایسی نشوونما کرنی پڑے گی ،جو واقعی ہماری امیدوں کے مطابق مستقبل میں ہمارے لئے مفید ہوگا۔ اگر اولاد کی صحیح تربیت ہوگئی تو یہ امید رکھنی چاہیے کہ ہم نے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کی صحیح بنیاد رکھی ہے۔ بچپن کی تربیت کا نقش ہمیں بچے کی بلوغت میں دِکھتا ہے، بچپن میں ہی اگر بچے کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبلوغت کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن بُرے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتداء سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔ اولاد کی اچھی دینی و دُنیوی تربیت نہ صرف دنیا میں نیک نامی بلکہ آخرت میںبھی کامیابی کا سبب بنے گی۔ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔ آج کل سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے یہ دِل دہلانے والے واقعات شاید والدین کی صحیح رہنمائی نہ کرنے اور اچھی تربیت کے نہ دینے کے نتائج ہیں۔

تربیت کا مطلب اتنا ہی نہیں کہ انہیں کھلایا پلایا جائے اور رہائش کا بندوبست کیا جائے،یہ تو حیوان بھی کرتے ہیں۔ تربیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ جو ایک کورے کاغذ کی مانندہوتا ہے، اس میں ایسے اسباق تحریر کئے جائیں کہ مستقبل میں جو کوئی بھی اس کتاب کو پڑھے، ہمارے تحریر کی داد دے، ہر کسی قاری کے لیے یہ کتاب بے انتہا مفید ثابت ہو، یہ کتاب سر عام ہماری تذلیل کا باعث نہ بنے، تربیت کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنی اولاد کوبُرے اخلاق وعادات اور غلط ماحول سے بچا کر ایک صالح ،پاکیزہ ماحول فراہم کریں۔ کوئی اپنی اولاد کو دو روٹی کم کھلائے، انہیں سستے کپڑے پہنائے یا انہیں چھوٹے گھر میں رکھے، اس سے
اس کی عزت میں کوئی کمی نہیں ہوگی لیکن اگر اپنی اولاد کو اچھے اخلاق، نیک آداب، بہتر نظم وضبط نہیں سکھایا تو وہ اولاد اس کی تذلیل اور بے سکونی کا باعث ضرور بنے گی۔

آج کل اکثر والدین کی یہی شکایت ہوتی ہے کہ بچے اُن کی بات نہیں مانتے،اُن کا کہنا نہیں سنتے یا بے ادبی یا بد تمیزی کرتے ہیں، ایسے والدین کو چاہیے کہ شکوے شکایات کو ترک کرکے اپنی تربیت پر نظر ثانی کریں۔ آپ بچوں کے سامنے گالی گلوچ کروگے تو وہ بھی ضرور کریں گے، آپ بچوں کے سامنے سگریٹ پیوگے یا انہیں ہی دکان سے سگریٹ لانے بھیجو گے تو وہ ضرور اس کے عادی ہونگے، آپ اولاد کے سامنے مار پیٹ کروگے ،وہ بھی یہی کریں گے،آپ اولاد کے سامنے بد اخلاقی کروگے وہ ایسا ہی کریں گے، آپ اولاد کے سامنے اپنے والدین یا کسی بھی بڑے بوڑھے سے بے ادبی، بد اخلاقی اور بد تمیزی سے پیش آئیںگے تو اس بات کی قطعی یہ امید نہ رکھیں کہ آپ کی اولاد اس کے برعکس کرے گی۔یہ بات یاد رکھیں چھوٹے بچے نصیحتوں پر بہت کم عمل کرتے ہیں لیکن جو آپ کرتے ہیں ،اس کی نقل بڑی آسانی سے کرلیتے ہیں اور ضرور کرلیتے ہیں ۔ آپ اپنے گھر کا ماحول جیسا بناؤگے، ویسے ہی آپ کے بچے سیکھیں گے اور جب بچے جوان ہونگے تب آپ کو پھل ملے گا۔ اس پودے کو جیسے رنگ میں رنگوگے، جیسی اس کی نشوونما کروگے ویسی ہی درخت کی امید رکھنا اور ویسے ہی پھل کا انتظار کرنا۔ اپنی تربیت کو ایسے سمجھیں کہ آپ کی اولاد آپ کا آئینہ ہے جیسے آپ ہونگے، ویسا ہی اس آئینے میں دِکھے گا ۔

تربیت دو قسم کی ہوتی ہے ۔ایک ظاہری اور دوسری باطنی تربیت۔ ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیںاور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔

آج کے والدین اکثر اپنی اولاد کی ظاہری تربیت پر دھیان دیتے ہیں، ظاہری پرورش پر دھیان دینے کا مقصد صرف اور صرف دکھاوا اور تکبر ہوتا ہے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اپنے بچوں کی عادات بگاڑ کر، ان کو بد تمیز اور بے ادب بنا کر ہم ان سے خوش خلقی اور اعلیٰ آداب کی امید رکھتے ہیں ۔ظاہری پرورش میں اگر تھوڑی بہت کمی رہ بھی جائے تو کچھ زیادہ بڑا نقصان نہیں ہے لیکن اگر باطنی تربیت میں کمی رہ گئی، تو بلوغت میں وہ صرف اور صرف نافرمان اور بے ادب ہی رہ جائے گا اور جب بڑھاپے میں والدین کو اس کی ضرورت ہوگی تو وہی ہوگا جو آج کل ہم سنتے اور دیکھتے چلے آرہے ہیںاور جو آج کل سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔(جاری)
رابطہ۔6006796300
[email protected]