والدین اور بزرگوں کا احترام نابود | کیا وادی اپنی اقدار کھو رہی ہے؟ حال و احوال

ڈاکٹر فیاض مقبول فاضلی

وادیٔ کشمیر کی تہذیب و ثقافت کا ایک نمایاں پہلو والدین اور بزرگوں کا احترام رہا ہے۔ یہاں کے معاشرے میں بزرگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ان کی باتیں مانی جاتی تھیں اور ان کے فیصلے زندگی کے اہم ترین مسائل میں رہنمائی فراہم کرتے تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں، اس روایتی احترام میں کمی اور والدین کے ساتھ بدسلوکی کے چند چونکا دینے والے واقعات نے اس پُرسکون وادی کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورتِ حال نے کشمیر کی روایتی اخلاقی اقدار اور مذہبی فرائض کے بارے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔

۱۔ روایتی اقدار کی بنیادیں:کشمیر کی تہذیب و تمدن میں اسلام کی تعلیمات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور والدین کا احترام اسلامی تعلیمات کا ایک لازمی حصہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی بارہا تلقین کی گئی ہے۔ سورۃ السراء میں فرمایا گیا: ’’اور اپنے والدین کے ساتھ احسان کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ‘اُف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے عزت کے ساتھ بات کرو۔‘‘ (17:23)۔ یہ تعلیمات کشمیر کے معاشرتی ڈھانچے میں گہرے طور پر جڑی ہوئی ہیں اور کئی نسلوں تک یہ اقدار ایک خاندان کی بنیاد سمجھی جاتی رہی ہیں۔ماضی میں کشمیر کے خاندانوں میں بزرگوں کا مقام غیر متنازعہ ہوتا تھا۔ والدین اور دادا دادی کو رہنمائی کے ستون کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور ان کے فیصلے بچوں کی تربیت اور زندگی کے اہم پہلوؤں میں ایک بنیاد فراہم کرتے تھے۔ خاندان میں بزرگوں کی موجودگی کو ایک نعمت سمجھا جاتا تھااور ان کے تجربات سے نسل در نسل حکمت اور سمجھ بوجھ حاصل کی جاتی تھی۔

۲۔ موجودہ حالات: بدلتی ہوئی سماجی اقدارحالیہ برسوں میں، کشمیر کے معاشرتی ڈھانچے میں تیز رفتار تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ خصوصاً نوجوان نسل کے رویوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع میں اضافے، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور بیرونی دنیا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات نے کشمیری نوجوانوں کی سوچ اور طرزِ زندگی کو بدل دیا ہے۔ اس تبدیلی نے والدین اور بچوں کے درمیان دوریوں کو بڑھا دیا ہے اور بعض اوقات یہ فاصلے عدم احترام اور بدسلوکی تک پہنچ جاتے ہیں۔کچھ حالیہ واقعات میں والدین کے ساتھ نازیبا سلوک اور بے عزتی کے واقعات نے وادی کے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے واقعات جہاں بیٹے اپنے والدین، خصوصاً باپ کے خلاف ناروا رویہ اختیار کر رہے ہیں، ایک تشویشناک صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف کشمیر کی روایتی اقدار کے لیے ایک خطرہ ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی بھی ہیں۔

۳۔ عوامل جو اس تبدیلی کو فروغ دیتے ہیں:یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان تبدیلیوں کے پیچھے کیا وجوہات ہیں۔ کشمیر کے معاشرتی نظام میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، ان کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں:

ا۔ مغربی اثرات اور مادہ پرستی:گلوبلائزیشن اور مغربی ثقافتی اثرات کی وجہ سے نوجوان نسل کے ذہنوں پر مادہ پرستی اور انفرادی خودمختاری کے خیالات کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاندان کے بزرگوں کے مشورے اور ان کی رہنمائی کو غیر اہم سمجھا جانے لگا ہے، اور یہ رجحان والدین کے ساتھ بدسلوکی کی طرف بھی لے جا رہا ہے۔

۲۔ معاشرتی دباؤ اور معاشی مشکلات:کشمیری معاشرہ بھی معاشی مشکلات کا شکار ہے، جہاں نوجوان نسل کو روزگار کی تلاش، مالی مشکلات اور زندگی کے دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں بعض اوقات والدین کے ساتھ کشمکش اور اختلافات جنم لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں والدین کی عزت میں کمی آتی ہے۔

۳۔ جدید ٹیکنالوجی کا غلط استعمال:سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے نوجوان نسل کو زیادہ خودمختار بنا دیا ہے۔ نوجوان اب اپنے فیصلوں میں زیادہ آزاد ہو گئے ہیں اور بعض اوقات والدین کی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ بھی والدین کے احترام میں کمی کا سبب بن رہا ہے۔

۴۔ تعلیم اور تربیت میں کمی:والدین اور بچوں کے درمیان اس تعلق کی بگاڑ میں ایک بڑا عامل تربیت اور تعلیم کی کمی ہے۔ اسلامی تعلیمات اور روایتی اقدار کی کمی نوجوان نسل کی تربیت میں دکھائی دیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ والدین کے احترام کی اہمیت کو بھول جاتے ہیں۔

۵۔ بڑھتی ہوئی منشیات کی لت نوجوان نسل کو متاثر کر رہی ہے کہ وہ بزرگ والدین کا احترام کرنے کی قدریں کھو رہے ہیں؟ مادہ کے استعمال کی خرابی (SUD) کے اثرات پورے خاندان کو محسوس ہوتے ہیں۔ بچوں پر منفی اثرات میں لگاؤ، رسومات، والدین کی بے عزتی، بزرگ، کردار، معمولات، مواصلات، سماجی زندگی اور مالیات میں خلل شامل ہیں۔

۶۔ والدین کے حقوق اور بچوں کی ذمہ داریاں:اسلام میں والدین کے حقوق اور بچوں کی ذمہ داریوں پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حضورؐ کی حدیث ہے: ’’تمہاری جنت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘ اسی طرح والد کا مقام بھی بہت بلند ہے اور ان کی خدمت کو دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ ان اسلامی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔کشمیر میں والدین اور بزرگوں کا احترام اب بھی بہت سے خاندانوں میں موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ کچھ لوگ اپنی مذہبی اور سماجی ذمہ داریوں کو بھول رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بچوں کی تربیت اور ان کے کردار کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں۔

۷۔ بزرگوں کی خدمات اور تجربات کو سراہنا:بزرگوں کی اہمیت اور ان کے تجربات کا ادراک کرنا ایک کامیاب معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ وہ نسلیں جنہوں نے جنگ، مشکلات، اور تکالیف کے دور میں اپنا سفر طے کیا ہے، وہ نوجوان نسل کو قیمتی تجربات اور سبق دے سکتی ہیں۔ والدین کا احترام صرف ایک اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ یہ اس بات کی بھی ضمانت دیتا ہے کہ ایک معاشرہ خوشحال اور متوازن رہے۔کشمیر میں بزرگوں کی عزت اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا اس معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جب والدین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات سامنے آتے ہیں، تو یہ صرف خاندان کے نظام کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو کمزور کر دیتے ہیں۔

۸۔ والدین کے حقوق کی بحالی کے لیے اقدامات:اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے چند اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ والدین کے حقوق اور بزرگوں کا احترام دوبارہ بحال ہو:

(ا) تعلیمی اصلاحات:مدارس اور اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ بچوں کو والدین کے حقوق اور ان کے احترام کی اہمیت کا احساس دلایا جا سکے۔ اسلامی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنانا اور والدین کی عزت پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے۔

(ب) خاندانی مکالمہ اور مشاورت:والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خاندانی مکالمے اور مشاورت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ مثبت اور معاون رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اختلافات کے بجائے محبت اور سمجھ بوجھ پروان چڑھے۔

(ت)معاشرتی آگاہی:میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے والدین کے حقوق اور بزرگوں کے احترام کی اہمیت پر آگاہی مہم چلائی جا سکتی ہے۔ کشمیر میں مختلف تنظیموں کو والدین کے حقوق کے بارے میں معاشرتی شعور کو بڑھانے کے لیے سرگرمیاں کرنی چاہئیں۔

(ج) قانونی تحفظات:والدین کے ساتھ بدسلوکی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر، حکومتی سطح پر بھی ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو والدین کے حقوق کی حفاظت کریں۔ بھارت کے مختلف علاقوں میں والدین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں اور کشمیر میں بھی ایسے قوانین پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔

وادی کی روایتی اقدار کی بحالی:کشمیر ایک عظیم ثقافتی ورثہ اور مذہبی روایات کا حامل علاقہ ہے، اور والدین کا احترام ان روایات کا ایک اہم جزو ہے۔ اگرچہ چند واقعات نے اس مقدس رشتہ کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن امید ہے کہ کشمیر کا معاشرہ اپنی روایتی اقدار کی طرف واپس آئے گا۔ والدین کا احترام نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ معاشرتی ترقی اور استحکام کا ذریعہ بھی ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئےہر سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ وادی کشمیر اپنی عظیم روایات کو برقرار رکھ سکے اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک روشن مثال بن سکے۔

(مضمون نگار مبارک ہسپتال میں سرجن ہونے کے ساتھ صنف ِ اسلامی علوم کے اسکالر اور عصری مسائل پر اسلامی نظریات کے محقق ہیں) ان سے [email protected] اور twitter@drfiazfazili پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔