موت ایک اٹل حقیقت ہے جس کا سامنا دیر سودیر ہر ذی نفس کو کرنا ہے ۔البتہ کچھ افراد اس عارضی دنیا کو دائمی خیر بادکہنے کے باوجود اپنے نیک کار ناموں اور اعمال صالحہ کی وجہ سے زندہ جاوید رہتے ہیں ۔انہی میں میرا ابو عبدالسلام ڈار ولد عبدالا حد23؍اپریل 2010بروز جمعہ بوقت 6بجے کر تیس منٹ پر ’’چوں مرگ آید تبسم برلب اوست ‘‘کی تصویر بنے اپنے رب جلیل ورحیم سے جاملے ۔ مجھے ان کی بہت قربت، شفقت اور محبت نصیب ہوتی۔ آج ان کی بہت سی یادیں میرے قلب و ذہن میں گردش کر رہی ہیں۔ان میں سے بعض میرے لئے باعث ندامت، بعض وجۂ محبت، بعض درسِ سعادت اور بعض میرے غم میں اضافے کر رہی ہیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ، اوروں کی طرح نہ جانے کتنی کے والدین کی نماز جنازے میں شرکت کی ۔کسی کے بارے میں سنا کہ اس کا والد بزرگوار انتقال کرگیا تو بے ساختہ اناللہ وانااللہ راجعون پڑھی۔ جب یہ واقع اپنے آپ سے پیش آتا ہے تب معلوم ہوجا تا ہے کہ درد کیا ہے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر، ہر امتحان میں والدین کی ضرورت ہوتی،پھر ایک دن میں یہ بھی جان گیا کہ والد کا پیار کیا ہوتا ہے؟ باپ کی گود کیا ہوتی ہے؟ مولانا روم ؒ فرماتے ہیں: ماں باپ کے ساتھ تمہارا سلوک ایسی کہانی ہے جو لکھتے تم ہو لیکن تمہاری اولاد تمہیں پڑھ کر سناتی ہے‘‘میں پڑھنے والوں سے التجا کروں گا کہ اگر خدانخواستہ آپ میں سے کسی کے والدین آپ سے ناراض ہیں ،یا آپ جانے انجانے ان کی دل آزاری کا سبب بنے ہیں تو بلاتاخیر اس کا ازالہ کرلیجئے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی تاخیر عمر بھر کا پچھتاوا بن جائے۔ اسلام نے والدین کے رتبے کے بارے میں بڑی تلقین کی ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی بددعا، مسافر کی دعا اور والد کی دعا اولاد کے حق میں۔ ایک اور موقع پر رسول رحمت صلعم نے ایک شخص کے ہمراہ اس کے ضعیف والد کو دیکھا تو کیا نصیحت فرمائی: ’’ان سے آگے نہ چلا کرو، ان سے پہلے نہ بیٹھا کرو، انہیں نام لے کر نہ بلایا کرو ۔مجھے اپنے رب کریم کی ذات سے اُمید نہیں یقین ہے کہ میرے والد مرحوم قارئین کرام کے والدین سمیت جنت کے باغات میں ہے ۔