بلال فرقانی
سرینگر//وادی میںثقافت کے امین اپنے فن کے مستقبل کیلئے فکرمند نظر آرہے ہیں۔کشمیر کی وادی حسین ہے، تو فن بھی اپنی مثال آپ ہے، مگر سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ فن اور ہنر اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اِن دم توڑتے فنوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کرنے والے لوگوں اور کاریگروں کی اگر چہ کمی نہیں ہے،تاہم مبینہ طور پرسرکار کی عدم توجہی کی وجہ سے وہ نا امید نظر آرہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی اگر چہ ہمیشہ سے ہی فن اور ثقافت کا مسکن رہی ہے،تاہم نامساعد حالات اور متواتر حکومتوں کی غفلت شعاری سے یہاں کی ثقافت اب دم توڑ رہی ہے۔ کشمیر کے قدیم ثقافت میںسنگتراشی ایک قدیم ہنر اور فن ہے،جہاں قدرتی طور پر کھردرے پتھروں کو ایک خاص طریقے سے تراشا جاتا ہے۔موجودہ مواد اور تاریخی دریچوں میں جھانکنے سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں سنگ تراشی کی تاریخ صدیوں پرانافن ہے۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ عہد قدیم میں لوگ پتھرئوں کا استعمال مجسمہ سازی میں کرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس پتھر کو راجا دیور سنگھ نے استعمال کیا تھا،جس کے نام سے بعد میں اس پتھر کو دیور پتھر سے منسوب کیا گیا۔دیور پٹن میں ابھی بھی اس کے باقیات موجود ہے۔بعد میں مغل دور کے دوران اس کو با ضابطہ طور پر ایک آرٹ کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔یہ کام نہ صرف کشمیر میں ایک فن کی نشانی ہے،بلکہ ہزاروں لوگوں کیلئے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔دنیا بھر میں اگر چہ پتھرئوں کی تراشی اب مشینوں پر ہوتی ہے،تاہم کشمیر میں ابھی بھی ہاتھوں سے پتھرئوں کو تراشا جاتا ہے۔
سنگ تراشی کا فن اور صنعت اگر چہ اب ختم ہوتی جا رہی ہے،تاہم اس وقت بھی سنگ تراشوں نے اس کو مختلف سمت دیکر کچھ نہ کچھ اپنے روزگار کو بچانے کی کوشش کی ہے۔سنگ تراشوں کا کہنا ہے کہ مشینوں کے متعارف ہونے سے جہاں انکا روزگار متاثر ہو رہا ہے،وہی سرکار کی طرف سے انہیں اس قدیم ثقافت کو بچانے کیلئے کوئی بھی معاونت نہیں کی جا رہے۔پانتہ چھوک میں کام کر رہے،ایک سنگ تراش،محمد سلطان پرہ نے کہا’’ نئی نسل اس میں اب آنے کیلئے تیارر نہیں،کیونکہ اس فن میں اب روزگار کے مواقعے باقی نہیں رہے‘‘۔کشمیر اپنی دستکاری کیلئے جہاں دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتا ہے،وہیں کپڑوں ،شالوں اور دیگر ملبوسات پر تلہ دوزی نے اپنا خاص مقام حاصل کیا ہے۔تلہ دوزی وادی کے شہر خاص میں بالخصوص کی جاتی ہے،تاہم وادی کے دیگر حصوں میں بھی تلہ دوزی کا رواج ہیں۔اس دستکاری کاکام میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی کرتی ہیں،جو عام طور پر گھروں میں ہی شالوں یا دیگر ملبوسات،جن میں پھرن،کرتی،قمیض شلوار، خواتین کے ملبوسات شامل ہیں،پر اپنے جادوئی ہاتھ پھیر کر دلکش انداز میں تلہ دوزی کرتی ہیں۔تلہ کشمیر ی دستکار کڑھائی کے کاموں میں ایک مقبول مقام حاصل رکھتی ہے۔جدیدت اور موجودہ دور کے فیشن کے باوجودزریں یا تلہ کا کشمیری ثقافت،اصل ورثہ اور دستکاری روایت پر اپنی چھاپ ہے،اس لئے اکثر و بیشترملک اور ملک کے باہر فیشن میلوں میں بھی تلہ ملبوسات نے اپنی خاص جگہ بنائی ہے۔گر چہ عام طور تلہ دوزی ہاتھوں سے ہی کی جاتی ہے،تاہم وقت کے چلتے اس پر بھی مشینوں نے راج کیا ہے،جس کی وجہ سے چادر اور چاردیواری میں کام کرنے والی خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ دستکاروں کا کہنا ہے کہ تلہ دوزی پر مشینوں کے رواج نے جہاں اس دست کاری کی روح پر شب خون مارا ہے،وہیں وہ دلکشی،جاذب نظری،طلمساتی احساس بھی جاتا رہا،جو ہاتھوں سے تلہ دوزی میں ہوتا تھا۔ ڈلگیٹ میں تلہ دوزی کا کام کرنے والے ایک دستکار عبدالحمید نے بتایا کہ مشینوں نے پہلے ہی اس فن کی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے،جبکہ سرکار کی طرف سے اس فن کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ کاروبار اور فن روز بروز ختم ہو رہا ہے۔ دستکاریوں میں سوزنی یا کڑھائی بھی شامل ہے۔کشمیری شال پر سوزنی کے کام یا کڑھائی کی وجہ سے ہی دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے اور مشہور ہے۔ سوزنی کڑھائی کی وہ قسم ہے جس کو جموں کشمیر میں اپنے خاص انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ دیگر دستکاریوں کی طرح ہی سوزنی سازی بھی اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ اس فن سے جڑے ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک وقت کشمیری سوزنی سازی دنیا بھر میں مشہورتھی،تاہم وقت کے تھپیڑوں اور سرکار کی بے رخی نے اس فن کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔شہر خاص کے ایک کاریگر عبدالروف نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ مشینوں کے وار نے انہیں یہ کاروبار چھوڑنے کیلئے مجبور کیا،اور اب نئے لڑکے اس میں نہیں آرہے ہیں۔ وادی میں مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ختم ہو چکا ہے،کچھ دہائیاں قبل پہلے تک گھروں میں زیادہ مٹی کے برتنوں کا استعمال ہوتا تھا ۔مٹی کے برتنوں کی تاریخ قدیم ترین تہذیبوں سے ملتی ہے لیکن زمانہ جدید میں سٹیل کے برتنوں کی بھرمار اور ان کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے ان برتنوں کا استعمال اب بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ مٹی کے برتن ہماری ثقافت کا لازمی جزو ہیں لیکن ہماری نوجوان نسل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔