سرینگر+سوپور// شمالی قصبہ سوپور آج ہی کے دن25برس قبل خون میں غلطاں ہوا،جب سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکاروں نے6جنوری1993 میں53معصوم شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔اس خون آشام سانحہ میں350کے قریب دکانات اور رہائشی مکانات بھی اگر چہ تباہ ہوئے،تاہم اب تک متاثرین انصاف کے متلاشی ہے۔ سوپور میں6جنوری1993کو سرحدی حفاظتی فورس(بی ایس ایف) اہلکاروں نے مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق75عام شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا،جبکہ چھوٹا لندن کے نام سے مشہور سوپور بازار کو بھی نذر آتش کیا۔کشمیر کی تاریخ میں اس خونین سانحہ کو بدترین قتل عام کے بطور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔مشہور رسالہ’ٹایم میگزئن‘‘ نے18جنوری1993کو اس واقعے سے متعلق خبر کی رپورٹ کو’’خونی لہر میں اضافہ‘‘ کا عنوان دیا۔چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ6جنوری 1993کو سردی کی لہر جاری تھی،جبکہ صبح کے وقت9بجکر30منٹ پر3سے4عسکریت پسندوں نے سرحدی حفاظتی فورس(بی ایس ایف) کے ایک پلاٹون کو بابا یوسف گلی کے نزدیک نشانہ بنایا،جس کے دوران ایک اہلکار ہلاک ہوا،جبکہ ایک عسکریت پسند نے بی ایس ایف اہلکار سے بندوق چھین لی۔اس دوران بی ایس ایف اہلکارحشم ناک ہوگئے،جس کا خمیازہ عام لوگوں کو اٹھانا پڑا۔چشم دید گواہوں کے مطابق قریب9بجکر55منٹ پر فائرنگ کے آدھ گھنٹہ بعد بابا یوسف لین سے کچھ5 کلو میٹر دور قائم سرحدی حفاظتی فورس کی94بٹالین کیمپ کے اہلکار اپنی بارکوں سے باہر آئے،اور عام شہریوں پر اپنے بندوقوں کے دہانے کھولتے ہوئے آگ اگل دیااور اندھا دھند فائرنگ کی۔سرحدی حفاظتی فورس اہلکاروں نے بعد میں پورے سوپور بازار پر ’’گن پائوڈر‘‘ چھڑک دی اور اس کو نذر آتش کیا۔ زنانہ ڈگری کالج اور معروف صمد ٹاکیز سمیت120مکانات اور350دکانات کو راکھ کر دیا گیا۔آگ بجھانے والے عملہ نے میڈیا کو بتایا’’ ہم پر بندوقیں تان دی گئیں،اور آگ بجھانے کی اجازت نہیں دی گئی،جبکہ ہمیں بچائو آپریشن شروع کرنے میں مزید3گھنٹے لگ گئے،اہلکاروں نے زیادہ سے زیادہ شہری ہلاکتیںرونما ہونے کیلئے ہر ایک سبیل پیدا کی۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سرحدی حفاظتی فورس اہلکاروں نے’’ایس آر ٹی سی‘‘ بس کو بھی نشانہ بنایا،جو سوپور سے بانڈی پورہ کے راستے پر تھی۔اس بس میں25مسافر جل کر خاکستر ہوئے۔اس سانحہ عظیم میں بچنے والے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے’’ میں اس واقعے کو کسی بھی طور پر فراموش نہیں کرسکتا،جب بی ایس ایف اہلکار نے ایک ماں کی گود سے اس کے بچے کو چھین لیا،اور اس کو آگ کے شعلوں کی نذر کردیا،اور جب والدہ اپنے بچے کی واپسی کیلئے گڑ گڑا رہی تھی،اس کو بھی گولی مار دی گئی۔یہ واقعہ مجھے زندگی بھر تڑپائے گا‘‘۔پولیس نے اس واقعے سے متعلق ایک ایف آئی آر زیر نمبر 8/1993 اور 9/1993.درج کیا ہے،جبکہ کیس درج کرنے کے بعد23جنوری 1993کو کیس کی تحقیقات مرکزی ایجنسی’’سی بی آئی‘‘ کے سپرد کی گئی۔اس روز سیکورٹی فورسز نے بھی پولیس تھانہ سوپور میں ایک تحریری شکایت درج کی،جس میں کہا گیا کہ جنگجوئوں نے خوشحال متو سے مین چوک تک چہار اطراف سے اہلکاروں پر فائرنگ کی،جس سے کئی اہلکار زخمی ہوئے۔فورسزنے دفاع میں واپس گولیاں چلائیں،جبکہ جنگجوئوں کے پاس موجود بارودی مواد پھٹنے سے،کئی سرکاری تنصیبات،ادارے،اور دکانات کو نقصان پہنچا،جبکہ کئی شہری گولیوں سے ہلاک ہوئے۔اس سلسلے میں ایک کیس زیر نمبر09/1993 زیر دفعات 302, 307, 463 RPC, 4(3) TADA, 3/25 AA, 4/5 ESA بھی پولیس تھانہ میںدرج کیا گیا،اور دونوں کیسوں کی تحقیقات ’’سی بی آئی‘‘ نئی دہلی کے سپرد کی گئی‘‘۔ اس سانحہ کے بعد حکومت نے30جنوری1993کو جسٹس امرجیت چودھری کی سربراہی میں یک نفری کمیشن بھی تشکیل دیا۔بھارت کی سب سے اعلیٰ تحقیقاتی ادارے’’سی بی آئی‘‘(سینٹرل بیرو آف آف انوسٹی گیشن) نے کیس کی تحقیقات کیلئے20برسوں کا طویل عرصہ لیا۔جولائی2013میں مرکزی تفتیشی بیورو نے2علیحدہ تکمیلی رپورٹیں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سرینگر کی عدالت میں دائر کیں،تاہم ان رپورٹوں کو’’سی بی آئی‘‘ نے منظر عام پر نہیں لایا۔یکم اپریل 2012کو انسانی حقوق کارکن اور انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے ایک عرضی زیر نمبر SHRC/111/Sopore/2012 بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میںدائر کی،جس میں سوپور قتل عام کی تحقیقات کی اپیل کی گئی۔انسانی حقوق کے مقامی کمیشن نے اس عرضی کی بنیاد پر ریاستی پولیس کے سربراہ اور ضلع ترقیاتی کمشنر(ضلع مجسٹریٹ) کو سوپور قتل عام سے متعلق مکمل تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔29اپریل2012کو ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کمیشن کے سامنے رپورٹ پیش کی،جس میں پولیس نے کہا’’6 جنوری1993سے متعلق معاملے کیلئے تحقیقات کی گئی۔مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی) نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے پاس جو رپورٹ پیش کی،اس میں33شہریوں کی ہلاکت کی کی تصدیق کی گئی۔ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کی ہدایت پر مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی) نے21 اکتوبر2013کو کیس کی موجودہ نوعیت سے متعلق رپورٹ کمیشن میں پیش کی۔سی بی آئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران،زخمی گواہ،اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کی شناخت کرنے میں ناکام ہوئے،اور انہوں نے فائرنگ و کراس فائرنگ کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔رپورٹ کے مطابق اس صورتحال میں یہ بات ممکن نہ ہو سکی کہ اس مبینہ واقعے میں ملوث افراد کی نشاندہی ہوسکے۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شکایت گزار محمد الیاس بھی ’’سی بی آئی‘‘ کے سامنے نہیں آیاتاکہ انہوں نے ایف آئی آر میں جو الزامات عائد کئے تھے،وہ انکو ثابت کرسکے۔سی بی آئی رپورٹ کے مطابق،اس لئے تحقیقات کے دوران اس واقعے میں44 شہریوں کی ہلاکت اور14کے زخمی ہونے کی بات سامنے نہیں آئی کہ،انہیں کس نے ہلاک کیا۔مرکزی تفتیشی بیورو کی طرف سے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں سرحدی حفاطتی فورس نے تحقیقات کی پہل کی،جبکہ جنرل سیکورٹی فورس کورٹ اور بی ایس ایف نے ایک مکتوب زیر نمبر 06/1/93-CLO/BSF/5733محرر 11/10/2001 میں اس تحقیقات کے نتیجہ کے بارے میں خبر دی ،جس میں کہا گیا کہ،ملوث پی ایس ایف اہلکار اور افسراں کو بی ایس ایف ایکٹ1968کے تحت زیر دفعات 304, 307اور 436 r/w 34آر پی سی کورٹ مارشل کیا گیا،اور اس دوران انہیں سزائیں بھی دی گئیں۔ ’’سی بی آئی‘‘ نے اس کیس کو بند کرتے ہوئے کہا کہ20سال پہلے ہی گزر چکے ہیں،اور اس دوران تحقیقات کے تمام پہلوئوں پر کام کیا گیا،تاہم مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پرکوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ قانون کی طرف سے قائم کئے گئے کورٹ نے پہلے ہی اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث اہلکاروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے اور سزائیں بھی دی گئیں ہیں۔ جہانگیر احمد اس وقت 16برس کا کمسن نوجوان تھا،جب اس کا والد غلام رسول شالہ،6جنوری کو سوپور قتل عام میں سرحدی حفاظتی فورس کی گولی کا شکار بنا۔اس کا کہنا ہے’’ میں اس وقت ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا،ہم2بھائی اور2بہنیں ہیں،کسی نے بھی اس وقت سے ہماری خبر نہیں لی‘‘۔ان کا کہنا ہے’’ میرے والد اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا،اس لئے انکی موت کے بعد،میرے دادا کو بہت سے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔انہوںنے سخت محنت و مشقت کے بعد ہمیں جوان کیا،تاہم بعد میں انکی آنکھوں کی بنیائی بھی جاتی رہی،جبکہ میری دادی بھی ایک سال کے بعد اللہ کو پیاری ہوئی،کیونکہ اس نے اپنے بیٹے کی جدائی برداشت نہیں کی۔اب جبکہ اس واقعے کو25برس گزر چکے ہیں،تاہم ابھی بھی متاثرین انصاف کے منتظر ہیں،تاہم انہوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔