وادی چناب میں شعبہ ٔ تعلیم سرکاری عدم توجہی کاشکار بن کر مایوس کن تصویر پیش کررہاہے ۔ تعلیمی اداروں میں تدریسی عملے کی قلت ، بناعمارتوں کے سکول ، بنیادی سہولیات کا فقدان اور لائبریریوں و لیبارٹریوں کا نہ ہونا،خطے کے طلباء کی تعلیم پر بری طرح سے اثرانداز ہورہاہے ۔ اگرچہ شہروں میں قائم سکولوں میں بنیادی سہولیات اور تدریسی عملہ بھی ہوتاہے لیکن دیہات میں واقع تعلیمی ادارے زبوں حالی کاشکار ہیں جہاں نظام تعلیم مفلوج بنتاجارہاہے ۔دیہی علاقوں میں چاہے پرائمری سکول ہوں، مڈل سکول ہوں ، ہائی سکول ہوں یاپھر ہائراسکینڈری سکول ،ہر ایک میں تدریسی عملے کی قلت پائی جارہی ہے ۔تدریسی عملے کی قلت کا اندازہ اسی بات سے ہوتاہے کہ صرف رام بن ضلع میں 600لیکچراروں اور اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔اعلیٰ تعلیم کی حالت زیادہ ہی خراب ہے ۔ضلع رام بن میں تیرہ ہائراسکینڈری سکول ہیں جن میں کسی میں بھی لیکچراروں کی اسامیاں پُر نہیں کی گئیںاور ڈیڑھ سو کے قریب اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔خطے میں اعلیٰ تعلیم کا نظام کنٹریکچول لیکچراروںسے چلایاجارہاہے جن کی تعیناتی ہی ہر سال تاخیر سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے طلباء کے تعلیمی سیشن کے کئی قیمتی ماہ ضائع ہوجاتے ہیں۔ان اداروں میں میڈیکل اور نان میڈیکل کے شعبے تو قائم ہیں لیکن یہ مضامین پڑھنے والے طلباء کو نہ لیبارٹریوں کی سہولت ہے اور نہ ہی لائبریریوں کی ۔وہیں ثانوی سطح پر سکولوں کا نظام رہبر تعلیم اساتذہ کے ہاتھ ہے اور دیگر اساتذہ کو رمسا ، ایس ایس اے اور دیگر سکیموںکا کام چلانے کیلئے دفاتر میں اٹیچ کرکے رکھاہواہے باوجود اس کے کہ اٹیچ منٹ پر پابندی عائد ہے۔اس پر طرہ امتیاز یہ کہ ہر ایک سکول سے ایک ٹیچر کو مڈ ڈے میل کے کام پر مامور رکھاگیاہے جس کا زیادہ تر وقت ہی اسی کام میں بیت جاتاہے ۔اس کے نتیجہ میں ان سکولوں میں نظام تعلیم بری طرح سے متاثر ہورہاہے جہاں دو یا تین ہی اساتذہ تعینات ہوتے ہیں ۔یہیں نہیں بلکہ سینکڑوں سکولوں کے پاس اپنی عمارتیں ہی نہیں جبکہ سینکڑوں کو کرایہ کی عمارتوں میں چلایاجارہاہے ۔اگرچہ حالیہ کچھ برسوں کے دوران سروشکشا ابھیان کے تحت خاصی تعداد میں عمارتوں کی تعمیر کاسلسلہ جاری ہے لیکن غیر معیاری کام کے باعث یہ تعمیر کے کچھ برس ہی گرنے کی دہلیزتک پہنچ جاتی ہیں اور پھر ان کی مرمت بھی نہیں کی جاتی ۔آندھی طوفان کی وجہ سے کئی سکولوں کے چھت بھی اڑ گئے لیکن ان کی طرف بھی مڑ کر کسی نے نہ دیکھا ۔سکولوںمیں بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے اور بہت ہی کم ایسے سکول ہوںگے جن میں پانی ،بیت الخلاء اور دیگر سہولیات دستیاب ہوں جبکہ دیگر تمام ان سے کوسوں دور ہیں۔تعلیمی شعبے کی طرف توجہ نہ دیئے جانے کا ہی نتیجہ ہے کہ خطے کے دیہی علاقوں کے سکولوں کے نتائج مایوس کن ہوتے ہیں ۔حال ہی میں منظر عام پر آئے دسویں اور بارہویں کے نتائج میں کئی سکولوں کے طلباء کی کامیاب ہونے کی شرح صفر فیصد رہی جبکہ کئی کے دس فیصد سے بھی کم نتائج رہے ۔چنندہ سکول ہی ایسے ہیںجن کے نتائج تیس سے چالیس یا اس سے زیادہ رہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرکاری سکولوں میں غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء زیر تعلیم ہوتے ہیں جن کوایسے دور میںبھی تعلیمی حصول کیلئے سہولیات فراہم نہ ہونا ناانصافی ہے جب حکومت غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے بڑے بڑے دعوے کررہی ہے اور اس حوالے سے متعد د سکیمیں بھی چلائی جارہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف خطہ چناب بلکہ پوری ریاست میں تعلیم کے شعبے کو فوقیت دی جائے اور تدریسی عملے کی کمی پوراکرنے کے ساتھ ساتھ ہر ایک تعلیمی ادارے میں بنیادی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔خاص طور پرمعیاری تعلیم پر توجہ دی جائے تاکہ سکولوں کے بہتر نتائج برآمد ہوں جس سے بہتر مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے ۔