اَشفاق پرواز
گزشتہ کئی دہائیوںکے تعلیمی نظام کی طرف اگر آج ہم توجہ مرکوز کریں گے، تواس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ اُس دور کے تعلیمی نظام اور آج کے تعلیمی نظام میں کتنا فرق آچکا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیا ںہے کہ کتنے بھی بڑے اور معروف اسکالر، سائنس داں، جج، وکیل، ڈاکٹر،انجینئر و دیگر اعلیٰ عیدیداراں،لیڈران،شعراء وادباء نے اپنے کیریئر کی بھلائی اور بہتری کے لیے کسی پرائیوٹ سکول، کالج یا انسٹی ٹیوٹ سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ انہوں نے بھی انہیں سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی اور اتنے اعلیٰ عہدوںپر فائز ہوگئے۔ مگر آج کل ہماری نئی نسل تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی چلی جاتی نظر آرہی ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اسکولوںاور کالجوں میں تعلیم دینے والے اساتذہ کرام یا نظام سنبھالنے والے وزراء اور حکمران یا پھر سماج؟میری نظروں میں تو یہی کہنا مناسب ہوگا کہ اس نظام کی ابتر ی میں یہاں کاعوام ،یہاں کے حکمران اور اساتذہ صاحبان برابر کے شریک ہیں۔
جہا ںتک عام لوگوں کی ذمہ داری کا سوال ہے۔اس کے لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہے ہیں۔شہر ہو یا گائوں،قصبہ ہو یا دیہات، میدانی علاقہ ہو یا پہاڑی علاقہ جہاں بھی سرکاری اسکول قائم ہیں،وہاں کے رہنے والے لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں میںداخلہ تو دلواتے ہیں مگر اس کے بعد ان پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،اس کی طرف وہ توجہ دیناگوارہ نہیں کرتے۔اپنے بچے کی دیکھ ریکھ، اسکول سے واپس لوٹنے کے بعد اس کی پڑھائی کے متعلق جان کاری، اس کی پڑھائی کا حال چال اور اساتذہ کی کارکردگی کے بارے کی طرف دھیان دینے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے۔ان کا بچہ اسکول جاتا بھی ہے یا نہیں،وہ اسکول کا کام کرتا بھی ہے یا نہیں، اس کی طرف والدین کا توجہ بھلا کیسے ہوگا، کیوں کہ اس نا پائیدار دنیا میں جھوٹ،مکاری، دھوکہ دہی، رشوت خوری، بے ایمانی اور ناجائز طریقوں سے دولت کمانے کی فکر سے ہی لوگوں کو فرصت نہیں ملتی۔ بھلا وہ اپنے بچوں کی کیوں کر فکر کرسکتے ہیں۔
اگر چہ سبھی لوگ اس میںشامل نہیں ہیں تاہم محنت، ایمان داری اور مشقت سے پیسے کمانے والے بھی بچوں کے لیے تباہ کار ی کاسامان خود مہیا کرتے ہیں جو بعد میںخودان کے ہی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اپنی پہنچ سے باہر اپنے بچوں کے لیے ان تمام تر چیزوں کی سہولتیںمیسر رکھنا بھی بچے کو بگاڑنے کا سبب ہے۔ آج سے تقریباً تیرہ یا چودہ برس پہلے کی بات ہے کہ جب ہم اسکول جاتے تھے تو کھبی کھبی میلوںپیدل چل کر سفر کرنا پڑتا تھا،جیب خالی ہوا کرتی تھی، وردی پھٹی ہوئی۔ایک دوسرے کی کتابوںسے پڑھائی کرتے تھے،اُدھار کتابوں سے کام چلاتے تھے۔اور یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آج کل جتنے بھی بڑے معروف جج، وکیل، اسکالر،فلاسفر، پروفیسر ودیگر اعلیٰ آفیسران حضرات و خواتین ہیں،بیشتر اُن ہی حالات میںتعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ ہاں یہ بات ضروری ہے کہ اس میںاُن کے والدین کا اہم رول رہا ہے،جو اُن پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ خود فاقہ کشی کرتے تھے مگر بچوں کی تعلیم کا دھیان رکھتے تھے اور یہی ایک جذبہ تھا، جسے بچہ بھی محسوس کرتا تھا،اور وہ بڑے شوق و ذوق کے ساتھ پڑھتاتھا۔اپنے والدین کی حالات زار اور غریبی اس کے آنکھوںسے اوجھل نہیں ہوتی تھی۔اس لیے وہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے اپنے ماں باپ کے خون پسینے کی کمائی کا احترام کرتا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چل کر ایمان داری،نیک نیتی، محبت اور خلوس کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوںکو جاری رکھتا تھا اور اساتذہ حضرات بھی اپنی ذمہ داریاںاتنی ہی خوش اسلوبی اور نیک نیتی سے نبھاتے تھے۔وہ اسکول میںزیر تعلیم بچوںکو محض اپنا بچہ سمجھ کر اس کی تربیت کرتے تھے۔مگر افسوس! آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ آج کے والدین اپنے بچوں کو اسکول میں چھوڑتے ہیںاور پھر اپنی ہی دنیا میںکھوجاتے ہیں۔ مزیدستم ظریفی یہ ہے کہ یہ والدین حضرات اپنے بچوں کے لیے بربادی کا وہ تمام سامان مہیا کرتے ہیں، جن کی فرمائش اُن کا بچہ کرتا ہے۔مثلاً موٹر سائیکل، ماروتی کار، موبائل وغیرہ۔ یہ ساری چیزیں عیاشی کا سامان ہیںجو محض دکھاوے کے لیے والدین اپنے بچوںکو دے دیتے ہیں، چاہے یہ چیزیں اُن کی پہنچ سے باہر ہی کیوں نہ ہوں۔لیکن ان کے حصول لے لیے وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے اور نتیجتاً اس کے بُرے اثرات بچوںپر بخوبی پڑجاتے ہیں اور بعد میں تباہ کُن نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔
جہاں تک اساتذہ کرام کا تعلق ہے، وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ اس بات سے قارئیں حضرات بخوبی واقف ہوں گے کہ زمانے کا ہر فرد دیکھا دیکھی کے عالم میں اپنی اصل پہچان، اپنی اصل حیثیت اوراصل حقیقت یکسر بھول چکا ہے۔اور پھر اس نا پائیدار دنیا کے موجودہ دور کا ایک فرد ہی ہمارا اُستاد بھی ہے، بھلا وہ دوسروں سے کیوں کہ پیچھے رہے گا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ آج کل کےاساتذہ نے اپنا تقدس، عزت اورحرمت خود ہی ملیامیٹ کر دی ہے۔اگر اساتذہ کرام بد دیانت، رشوت خور اور کام چور لوگوں کی راہ نہیں اپناتے، تو شاید ہمارا تعلیمی نظام اتنا بدتر نہیںہوتا۔جتنا کہ یہ بن چکا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ پیشہ ایک عظیم اور مقدس پیشہ تھا۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انسان سے انسان کی پہچان،قرآن وحدیث، مذہب و ملت کا تصور، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت،صحیح اور غلط کی پہچان ، گناہ اور ثواب کا احساس،بڑوں ا ور بزرگوں کی عزت اور والدین کی خدمت کی باتیں تو یہی اساتذہ سکھاتے تھےاور دینی و دنیوی کی مفید باتوں سے روشناس کراتے تھے۔ مگر افسوس، آج کل سب کچھ بدل گیا ہے۔وہ اُستاد بدل گئے، اُن کا دل بدل گیا، اُن کا جذبۂ احساس بدل گیا، اُن کی ضمیر بدل گئی ہے۔ آج کے اساتذہ حضرات اسکولوں کے بجائے گھروں میں تعلیم دیتے ہیں۔ محض تجارت اور منافع کی بنیاد پر۔ ہفتے میں دو دن سکول آنااور وہ بھی ۱۲بجے سے دو بجے تک۔جب کہ پرائیو یٹ کوچنگ سنٹروں میں اپنا طویل وقت بڑے شوق سے گزارتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے میرے ایک دوست نے کہا:’’ہمارے چند اساتذہ کرام کلاس میںلیکچر دینے کے بعد ہم سے کہتے ہیںکہ اگر کسی سٹوڈنٹ کو کوئی سوال سمجھ ہیں نہ آیا ہو، توپریشانی کی کوئی بات نہیں،ہمارا کو چنگ سنٹر فلاںجگہ ہے‘‘۔اور پھر سرکاری اسکولوں میں اُن اساتذہ کی کمی نہیں ہے جو نا تو خود پڑھنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی بچوںکو پڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جب امتحان کا وقت آتا ہے تو اپنی غیر ذمہ دارانہ کارکردگی،غلط پالیسیوں اور غیر مہذ بانہ حرکات کو چھپانے کے لیے زیر و آنے والے بچوںکو خود ہیرو بنا دیتے ہیں۔او رفیل ہونے والے بچوں کوبھی فسٹ کلاس پاس کرواتے ہیں۔ ان اسکولوں میںنیک دل، پاکباز اور ایماندار اساتذہ کرام بھی کام کررہے ہیں،لیکن ساتھ اس اساتذہ کرام کی کثیر تعداد اُن لوگوں کی ہے جو اس تعلیمی نظام کو زوال کی طرف لے جانے میں اپنا کلیدی رول نبھارہے ہیں۔ بقول اقبال ؎
شکایت ہے مجھے یا رب خداوند ان مکتب سے
سبق شاہیں بچوںکو دے رہے ہیںخاکبازی کا
سرکاری اسکولوںمیں غیر تسلی بخش تعلیمی نظام ہونے کے علاوہ اسکولوں میںبچوں کے لیے کسی بھی قسم کی سہولیت کا انتظام نہیںہوتا۔بچھانے کے لیے فرش کی قلت، ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میںبغیر دروازوں اور کھڑکیوں کے کلاس روموں میںبچوں کو بغیر فرش کے مٹی اور دھول پر بٹھایا جاتا ہے۔ پانی کی عدم دستیاب اور بیت الخلا کی نا یا بی کا مسئلہ بھی بچوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔کھیل کے میدانوں کی غیر موجودگی،کھیل کے سامان میسر نہ ہونا، سائنس تجربہ گاہ کا ضروری سامان کا نہ ہونا بھی ان اسکولوں سے طلباء وطالبات کو منہ موڑنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ظاہر ہے ایسی صورت حال میں سرکاری اسکولوں میںتعلیمی نظام زوال پزیر ہی ہوگا۔
روزنئے نئے تعلیمی نصاب کا بدلنا اور رائج ہونا بھی یہاں کے تعلیمی نظام میں پستی کی علامت بنتا جارہا ہے کیونکہ یہ نئے نصاب جب اساتذہ کی سمجھ سے ہی باہر ہوںتو بھلا وہ اپنے زیر نگران طلباء و طالبات کے لیے کیا کچھ کر پائیں گے؟سچ تو یہ بھی ہے کہ سرکاری اسکولوں میںاساتذہ کی تقرری، تبادلے ،نظم و ضبط، ڈیوٹی پر حاضری، وقت کی پابندی کا خیال رکھوانا،ذمہ دار افسران اوراعلیٰ حکام کا ہی کام ہوتا ہے۔مگر جہا ں تک ان ذمہ داران، اعلیٰ آفیسران اور متعلقہ حکام کا تعلق ہے، وہ کبھی کبھار ہی ان اسکولوں کا رُخ کرتے ہیں،جس کی وجہ سے سرکاری ا سکول محض ایک تماشابنے ہوئے ہیں۔ ان تمام باتو ںسے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام کو ابتر کرنے اور زوال پذیر بنانے والدین ،اساتذہ اور متعلقہ اعلیٰ حکام یہ تینوںطبقے شامل ہیںاور ان کی غفلت،خود غرضی ،نااہلی اور غیر ذمہ دارانہ پالیسی نے نظام تعلیم کو پست اور شکستہ بناکے رکھ دیا ہے ۔ آج بھی اگر ان تینوں طبقوں میںذرا برابر بھی انسانیت، دیانت داری اور جذبۂ قوم و ملت موجودہے تووہ اس وقت اُسے بروئے کارلاکر سارے نظام میں تبدیلی لاسکتے ہیںاور پنے یہاں کے تعلیمی نظام کو اُس مقام تک واپس لاسکتے ہیں جہاں اس کو تقدس کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اس کی اپنی ایک الگ عزت و توقیر تھی۔والدین ،اساتذہ اور حکام اگرمل بیٹھ کر اس بات کو یقینی بنانے کی پہل کریں گے تو یہ کوئی مشکل کام ہی نہیں کہ اِن اسکولوں میں تعلیمی نظام بہتر ہو جائےاور ہمارے عزیز و شفیق بچے تعلیم کے نور سے منور ہو جائیں۔ مگر یہ سب کچھ تبھی حاصل ہو سکے گا جب یہ تینوں طبقے اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں اور نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے کمر بستہ ہوجائیں۔ اور پھران سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو علم کے نور سے صحیح طریقے سے آراستہ کرنے اور ان اسکولوںمیں بچوں کے داخلے کو بڑھاوا دینے کی تدابیریں اختیار کریں۔اساتذہ جہاںاپنے پیشے کو اپنا مقدس فرض سمجھ کر نبھائیں،وہیںوالدین یا یہاں کے عوام کو بھی ان اسکولوں میں ہورہے کام کاج پر نظر رکھنا چاہئے ۔جبکہ اعلیٰ حکام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سرکاری اسکولوں میںسدھار لانے،ان کی کارکردگی بہتر بنانے اورطلبا کے لئے انہیںپُر کشش بنانے کی خاطر وہ تمام تر اقدامات اٹھائیںجن کی فی الوقت اشدضرورت ہے۔اس لئے اس نیک کام میں متعلقہ حکام کو ایسے ضروری سامان فراہم کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے،جنہیں ان اسکولوں میں ہونا لازمی ہے۔اس سلسلے میں ہیڈ آف دی انسٹی ٹیوٹ کو پورے اختیارات دئے جائیں تاکہ وہ نچلے سطح پر بھی عوام کی خدمت کر سکے۔ واضح رہے اس تعلیمی نظام کو سدھارنے کی خاطر سماج کے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ کوشش کرنی ہوگی بالخصوص نوجوانوںکو۔چاہے وہ کوشش انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر۔
( مضمون نگار ’’تعمیر معاشرہ اور اسلام ‘‘کے مصنف ہیں)
رابطہ: [email protected]