بلال فرقانی
سرینگر// ما رمضان کی آمد اور بیرون ریاستوں میں گرمی کی شدت بڑھ جانے کے ساتھ ہی وادی میں غیر ریاستی گداگروںکی آمد بڑے پیمانے پر شروع ہوچکی ہے اور اسکولوں ، کالجوں ،بس اڈوںو صحت افزا مقامات کے علاوہ پیٹرول پمپوں اور سڑکوںپر وہ بھیک مانگتے نظر آ رہے ہیں ۔ وادی میں خوشگوار موسم کے ساتھ ہی بیرون ریاستوں سے سینکڑوں بھکاری وارد کشمیر ہوچکے ہیں اور اس صورتحال کا سدباب کرنے کے لئے متعلقہ حکام پر اسرار طور خاموش اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ عوامی اور مذہبی مقامات پر گداگری پر اگر چہ پابندی عائدہے،تاہم سیاحوں کی ریکارڈ توڑ آمد،ماہ رمضان اور عید الفطرکی مناسبت سے سینکڑوں بھکاریوں نے شہر کو اپنا مسکن بنادیا ہے،جبکہ سرکاری مشینری خاموشی کے ساتھ ان غیر ریاستی گداگروں کا نظارہ کر رہی ہے۔ ماہ رمضان کے پیش نظر گزشتہ ایک ہفتہ سے مصروف ترین شہر کی گلیوں اور کوچوں کے علاوہ مذہبی مقامات،تعلیمی اداروں،ٹریفک سگنلوں ، کوچنگ مراکز اور دیگر جگہوں پر بھکاریوں کی بھر مار نظر آنے لگی،جن میں بیشتر کی تعداد غیر ریاستی گداگروں پر مشتمل ہیں۔ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے بھکاریوں کی اچھی خاصی تعدادکی نقل وحمل زیادہ نظر آ ئی۔ بچوں اور خواتین سے لیکر تمام عمر کے بھکاری ،مساجد ، بیکری کے دکانوں ، بنکوںبس اسٹا پوں ، بازاروں اور گاڑیوں میں ،خانقاہوں ، زیارتگاہوں سیاحتی مقامات کے علاوہ مصروف ترین بازاروں میں ڈھیر ہ جمائے نظر آ ئے اور وہاں آ ئے لوگوںکو صدقہ خیرات دینے کیلئے تنگ طلب کر تے ہیں،جس کی وجہ سے عام لوگوں کے علاوہ مہمان سیاح و سیلانی زبردست تنگ و طلب ہورہے ہیں اور اسطرح مہمان سیاح و سیلانی کی نظروں میں کشمیری کی عزت و وقار مٹی میں مل جاتی ہے۔ ان غیرریاستی بھکاریوں میں چھوٹی لڑکے لڑکیاں اور خواتین بھی شامل تھیں۔لالچوک کے پولو ویو، مغل دربار،ریگل چوک ، جان بیکری، ، شکتی سویٹس اور دیگر دکانوں پر ایسے ناتواں بھکاریوں کی اکثر تعداد تمام اہم ٹریفک سگنلوں کے علاوہ بڈشاہ پل اور امیراکدل پر نظر آتی ہے جہاں وہ دن کے اجالے میں سڑکوں پر لیٹ کر اور سینہ تان آسمان کی طرف کرکے راہ خداہ میں بھیک کیلئے پکارتے نظر آ ئے ۔ سرکاری طور پر مذہبی و عوامی مقامات پرگداگری پر پابندی حکم نواب تا در نواب ثابت ہورہا ہے۔اعجاز احمد نامی دکاندار نے بتایا کہ ریاست میں بھکاروں کی بڑھتی آ بادی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پوری وادی گدا گروں کے اڈے میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ ذرائع کے مطابق بیرون ریاستوں سے آنے والے لوگوں میں بھکاری اور لولے لنگڑوں کی تعداد اس قدر بڑھ رہی ہے کہ اب سرینگر میں ایسے معذوروں کے لئے جگہ کم پڑتی جارہی ہے اور جو لوگ ایسے جسمانی طور ناخیز افراد کو یہاں لیکر آجاتے ہیں اور ان کو اب وادی کے دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بیرون ریاستوں سے لولے لنگڑوں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا سینکڑوں لوگوں کی کشمیر آمد سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ممکنہ بیماریاں پھوٹ پڑنے یا پھیلنے کے خدشات بھی پیدا ہوچکے ہیں۔اعجاز کا مزید کہنا تھاانتظامیہ کی خاموشی سے ہر روز ان بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جوبلا روک ٹوک وادی میں داخل ہوکر کھلے عام گھومتے رہتے ہیں ۔اس دوران ظاہری طور پر مختلف بیماریوں اور امراض میں مبتلابھکاری پچھلے کئی دنوں سے گلیوں اور کوچوں میں نظر آئے اور دعائیں دیکر لوگوں کو لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں ر کھتے تھے۔ 23مئی2018 کو اس وقت کے ضلع ترقیاتی کمشنر سرینگر سید عابد رشید شاہ کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا تھا،جس میں کہا گیا تھا کہ جموں کشمیر سے منسلک’’ انسداد گداگری قانون‘‘1960 کے تحت گداگری ایک جرم ہے،اور’’یہ لازمی ہے کہ خلاف ورزی کے مرتکبین کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی‘‘۔ آر ڑر میں کہا گیا تھا کہ عوامی مقامات،مساجد میں ،مندروں یا دیگر عوامی مذہبی مقامات کے اندر یا باہر کسی قسم کی گدا گری پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ حکم نامہ میں کسی بھی نجی رہائش گاہ میں گدا گری کیلئے داخل ہونے،حصول خیرات کیلئے کسی بھی قسم اشیاء کی نمائش اور دکھاوئے، بیماری کو دکھانے،چاہے انسانی یا جانور کی ہو ،پر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔سماج کے کئی ذی شعور اور صاحب فکر لوگوں نے بتایا کہ ان غیر ریاستی مزدوروں اور بھکاریوں کی وارد کشمیر ہونے سے سماجی برائیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔صاحب فکر لوگوں کا کہنا ہے کہ حیرت انگیز طور پر ان مختلف بیماریوں میں مبتلا گدا گروں کوکشمیر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے،اور انکی کوئی چیکنگ نہیں ہوتی۔
وادی میں غیرریاستی گداگروں کی بھرمار سے عوام پریشان
