بلال فرقانی
سرینگر//کشمیر شدید گرمی کی لہر اور غیر معمولی درجہ حرارت میں تبدیلیوں کا سامنا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے دریائے جہلم اور اس کے معاون ندیوں نالوںمیں پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔موجودہ صورتحال کشمیر میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کا باعث بنی ہے۔ وادی میں تقریباً جون کے وسط سے گرمی کی لہر کے نتیجے میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا،جس کی وجہ سے دریائوں،ندی نالوں، آبی ذخائر اور دیگر پانی کے ذرائع میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ ندی نالوں میں، پانی کی سطح میں خطرناک حد تک گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ دریائے جہلم اور اس کی معاون ندی نالوں میں بھی سطح آب اوسط سے نیچے چلی گئی ہے۔اننت ناگ میں نالہ برنگی تقریباً سوکھ گیا ہے۔ نالہ رمبی آرہ، نالہ رومشی اور ویشو کے علاوہ دودھ گنگا نالہ بھی لگ بھگ سوکھ چکے ہیں۔ان نالوں میں صرف چشموں سے نکلنے والا پانی بہہ رہا ہے۔ سرینگر میں اتوار کو رام منشی باغ میں دریائے جہلم کی سطح3.13فٹ ریکارڈ کی گئی۔ محکمہ آبپاشی و فلڈ کنٹرول کے ٹیکنیکل افسر مفتاح العالم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جنوبی کشمیر کے سنگم میں0.96فٹ، پانپورمیں3.15فٹ ، ضلع بانڈی پورہ کے عشم میں2.42فٹ، اور ولر میں1574.950میٹر ریکارڈ کی گئی۔ مفتاح العالم نے معاون ندیوں کے بارے میں جانکاری فراہم کرتے ہوئے کہا کہ کھڈونی میں نالہ ویشو میں1588.981،وچی میں نالہ رمبی آرہ میں1588.550، بٹہ کوٹ میں نالہ لدر میں1954.896، برزلہ میں نالہ دودھ گنگا میں1585.234 اور ددر ہامہ میں نالہ سندھ میں 1581.667پانی کی سطح ریکارڈکی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ درنگ میں فیروز پورہ نالہ میں2211.937،سیلو میں نالہ پہرو میں1572.947اور رومشی اگلر میں1866.958میٹر ریکارڈ کیا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں تقریباً 40فیصد آبادی قدرتی چشموں کا پانی استعمال کرتی ہے اور وادی میں ان چشموں کی تعداد 2650سے زائد ہے۔ان میں سے بیشتر چشمے یا تو سوکھ گئے ہیں یا ان میں پانی کی سطح کافی کم ہوگئی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ پانی میں 21فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔غور طلب ہے کہ مغربی ہمالیہ کے ایک سرد صحرائی علاقے دراس میں 77 گلیشیئرز پر ماحولیاتی سائنس اور آلودگی کی تحقیق میں مارچ 2022 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2000 اور 2020 کے درمیان گلیشیر کا کل رقبہ 5.32 مربع کلومیٹر تک بلیک کاربن سمیت گیس کا اخراج اور آلودگی سے سکڑ گیا۔ہوا کے بدلتے ہوئے انداز بھی بارش میں کمی میں ایک کردار ادا کرتے ہیں۔ عام طور پر، ویسٹرن ڈسٹربنس کہلانے والی ہوائیں ہمالیہ میں بڑی مقدار میں بارش لاتی ہیں۔ مغرب سے آنے والی ہوا بحیرہ روم پر نمی اٹھاتی ہے۔ جب ہمالیہ سے ٹکراتا ہے تو ایئر ماس پانی کو گراتا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، ان طوفانوں کی تعدد میں 43 فیصد کمی آئی ہے۔امریکن میٹرولوجیکل سوسائٹی کے ذریعہ کئے گئے 2019 کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ مغربی رکاوٹوں کی کم ہوتی تعدد اور شدت کے نتیجے میں شمالی ہندوستان میں موسم سرما کی اوسط بارشوں میں 15 فیصد کمی واقع ہوگی۔ادھر وادی میں پانی کی سطح کم ہونے کے نتیجے میں فصلوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے کیونکہ اس وقت بیشتر فصلوں کو آبپاشی کی ضرورت نہیں ہے۔پانی کی شدید قلت کے نتیجے میں لوگوں نے احتجاج بھی شروع کیا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر بٹہ وارہ، شیو پورہ، ہوزوری باغ،رعناواری،بڈو باغ، چودھری باغ،جوگی لنکر، سعد کدل، کلائی اندر،کاٹھی دروازہ، باچھی دروازہ، نوہٹہ سمیت کئی علاقوں میں لوگ پانی کی عدم دستیابی کے خلاف برسر احتجاج ہیں۔ سرینگر میں روزانہ کی بنیادوں پر9 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہے،،تاہم ذرائع کا ماننا ہے کہ7کروڑ گیلن ملین سے زائد پانی کی سپلائی فراہم نہیں ہو رہاہے۔محکمہ پی ایچ ای کو خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں پانی کی صورتحال میں بہتری آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ جولائی کے بیشتر ایام میں موسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جموں کشمیر میں فی الوقت330کے قریب پانی کی سکیمیں اورپروجیکٹ گزشتہ10برسوں سے زیر تعمیر ہیں،تاہم مقررہ وقت گزرجانے کے باوجود بھی ابھی تک ان پروجیکٹوں کو مکمل نہیں کیا گیا۔ایگزیکٹو انجینئر پی ایچ ای، ووٹر ورکس ڈویژن سرینگرنے کہا کہ خشک موسم کے نتیجے میں صورتحال پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے پانی کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے،جس کے نتیجے میں شہر کے کچھ علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔