ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد
ملک میں بعض مسابقتی امتحانات ایسے ہوتے ہیں جس میں ہر مرحلہ پر شفافیت کو لازمی طور پر بر قرار رکھنا حکومت کی اولین ذ مہ داری ہوتی ہے۔ ان مقابلہ جاتی امتحانات کے انعقاد میں حکومت کی جانب سے تھوڑی سی کوتاہی بھی طلباء کے مستقبل کو تباہ وتاراج کر دیتی ہے اور طلباء اس صدمہ کو برداشت نہ کرکے زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی عدم کا رکردگی کا یہ واقعہ گز شتہ دنوں منظر عام پر آیا ہے۔ طبی تعلیم کے گریجویشن کورس ایم بی بی ایس میں داخلہ کے مسابقتی امتحان نیٹ۔ 2024 کے نتیجہ کو لے اس وقت ملک میں طلباء احتجاج کر رہے ہیں۔ طلباء کا ادعا ہے کہ نیٹ امتحان کا پیپر لیک ہوا ہے۔ اس لئے اس امتحان کو منسوخ کر تے ہوئے دوبارہ ٹسٹ رکھا جائے اور سارے معاملہ کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کی جائیں۔ حکومت کا دعوی ہے کہ نیٹ کے پرچے کا افشاء نہیں ہوا ہے ۔ اپوزیشن پارٹیاں غیر ضروری طور پر حکومت کو بدنام کرنے کے لئے طلباء کو استعمال کر رہی ہیں۔ حکومت کے دعویٰ کو اگر تسلیم کیا جائے تو پھر بہار ، یوپی ، گجرات اور دیگر مقامات پر جن افراد کی اس معاملہ میں گرفتاری عمل میں آئی ،اس پر حکومت کے پاس کیا جواب ہے۔ کوئی بھی بغیر تحقیقات کرائے یہ دعویٰ کیسے کر سکتی ہے کہ نیٹ کے امتحان میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک ایسے وقت جب کہ ملک میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوئے تھے، اُسی دن یعنی 4جون کو نیٹ کا بھی نتیجہ آ تا ہے۔ جب کہ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی ( این ٹی اے ) جس کی نگرانی میں یہ امتحانات منعقد ہوتے ہیں ، قبل ازیں 14جون کو نتائج جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 14جون کے بجائے دس دن پہلے اچانک 4 جون کو نتائج کے اعلان کی وجوہات کیا تھیں؟ بدعنوانی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جن طلباء کو گریس مارکس دئے گئے تھے ، جب پرچہ کے افشاء کامعاملہ زور پکڑتا گیا تو حکومت نے گریس مارکس واپس لینے کا اعلان کردیا۔این ٹی اے نے زائد از 1500طلباء کو رعایتی نشانات دئے تھے ۔ یہ نشانات کن بنیادوں پر دئے گئے اور پھر ان کو منسوخ کیوں کر دیا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے خاطر منظم انداز میںدھاندلیاں کیں۔ معا ملہ جب عدالت تک پہنچا تو حکومت کو ہوش آیا اور اب معاملہ کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے 18جون )منگل (کو مرکزی حکومت اور این ٹی اے کی تنبیہ کر تے ہوئے کہا کہ اگر نیٹ امتحان میں 0.001فیصد بھی لاپروائی ہوئی ہے تو اس کا اعتراف کر تے ہوئے طلباء میں اعتماد بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات کرے۔ فاضل جج صاحبان نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ طلباء کو امتحانات میں کا میابی کے لئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے،اس کا احسا س حکومت ہونا چاہئے۔ ان عناصر کے خلاف کاروائی ضروری ہے جو دھوکہ دہی میں ملوث ہوئے ہیں کیوں کہ ایسے لوگ معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو اسے مان لینا چاہئے ۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے مرکز اور این ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیٹ ۔2024کو منسوخ کرنے کے لئے جودرخواستیں پیش کی گئیں،اس پر اپنا موقف واضح کرے تاکہ حکومت کی غیرجانبداری ثابت ہوسکے۔
نیٹ۔ 2024میں ہوئی بدعنوانیوں اور دھاندلیوں سے یہ امتحان دینے والے 24لاکھ سے زیادہ طلباء کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔ سپریم کورٹ کے تبصرہ کے باوجود مرکزی حکومت اور این ٹی اے اپنی غلطیوں کو تسلیم کر تے ہوئے سی بی آئی کے ذریعہ سارے معاملہ کی جانچ نہیں کرواتے ہیں تو حکومت اور ایجنسی کی غیر جانبداریت پر بھی سوالات اٹھیں گے۔ طلباء نے سارے ثبوتوں کے ساتھ سپریم کورٹ کو بتایا کہ جو طلبا ٹاپ رینک حاصل کئے ہیں ان میں اکثر ایک ہی امتحانی مرکز سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان سے رشوت لے کر ان کو رینک دلانے کا وعدہ کیا گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ کئی امیدواروں نے 720 میں سے پورے 720 نمبرات حاصل کئے ہیں۔ ا ین ٹی ا ے کی دھاندلی پر سپریم کورٹ کا تبصرہ بلاواسطہ حکومت کی کارکردگی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ مخصوص طلباء کوگریس مارکس دینا، کسی خاص امتحانی مرکز کے طلباء کا ٹاپ کرنا اور پیپر لیک کے معاملہ میں خاطیوں کی گرفتاری یہ سب حادثہ اتفاقی نہیں ہے ۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ کام ہوا ہے۔ جب سنگین بد عنوانیاں منظر عام پر آگئیں تو حکومت اور این ٹی اے اب اپنا دامن جھٹکنے میں لگی ہوئی ہیں۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سیاست کی جا رہی ہے اور یہ صرف انتشار پھیلانے کی کوشش ہے۔ مرکزی وزیر شائد یہ نہیں دیکھ پارہے ہیں کہ ایسی دھاندلی سے 24لاکھ سے زائد بچوں کے مستقبل کے ساتھ سے کھلواڑ ہوا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے دوران جب کہ پورے ملک میں سب کی توجہ انتخابی نتائج پر تھی، ایسے ہنگامے کے وقت نیٹ کے نتیجہ کا آنا خود ثابت کرتا ہے کہ اس دھاندلی پر کسی کی نظر نہ پڑے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کسی بھی سال تین سے زیادہ ٹاپرس نہیں رہے لیکن جاریہ سال یہ تعداد 67تک چلی گئی۔ کمال کی بات یہ بھی ہے کہ نیٹ۔2024کے ٹاپرس کے رول نمبر ایک جیسے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کے رول نمبرس میں یکسانیت ہو؟ ان سارے کھلے ثبوتوں کے باوجود حکومت کا اور نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی ( این ٹی اے ) کا یہ دعوی کہ نیٹ۔ 2024میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ہے ، جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردے۔اس وقت طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس سارے معاملے پر ملک کے وزیراعظم چُپ سادھے ہوئے ہیں۔ لاکھوں طلباء اور ان کے والدین بےچینی اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔ طلباء نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوکر اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم مسئلہ کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا پالیسی بیان دیں۔ لیکن تادم تحریر ایسا نہیں ہورہا ہے۔ قوم کی نوجوان نسل کامستقبل بھیانک ہو تاجا رہا ہے وہ ان کی ہمدردی میں دوبول نہیں بولے جاتے۔ سپریم کورٹ کی سرزنش کا بھی کوئی اثر نظر نہیں آرہا ہے۔ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ ملک کے 24لاکھ بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اوراس پروزیر اعظم کی خاموشی حیران کُن ہے۔
نیٹ امتحان منعقد کرنے والے ادارے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی ( این ٹی اے ) کی کارکردگی پر سابق میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔اس کی شفافیت اور پیشہ واریت پر سوالات اٹھتے رہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے حالیہ تبصرہ میں کہا کہ اسے اس معاملے میں خود کا جائزہ لینا چاہئے ا ور غیر جانبداری سے کام کر تے ہوئے اس کی ساکھ کو بر قرار رکھنا ضروری ہے۔ یہ ایجنسی اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہو گئی۔ ملک کی مختلف ریاستوں کو شکایت ہے کہ نیٹ امتحان سے غریب طلباء کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ نیٹ امتحان کے ذریعہ بعض طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ تامل ناڈو اور مہاراشٹرا جیسی ریاستوں میں شروع سے ہی نیٹ کے ذریعہ ایم بی بی ایس میں داخلوں کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ تامل ناڈو میں کئی طلباء نے نیٹ میں ناکامی کے بعد خودکشی کرلی ہے۔ تامل ناڈو کے چیف منسٹر اسٹالن نے بارہا مطالبہ کیا کہ معصوم بچوں کی زندگی کے تحفظ کے لئے نیٹ ٹسٹ کو برخواست کردیا جائے اور ہر ریاستی حکومت کو اپنے طور میں اس نوعیت کا امتحان رکھنے کی اجازت دی جائے۔ نیٹ کے طریقہ کار پر یہ بھی ایک تنقید کی جا رہی ہے کہ امتحان سی بی ایس سی کے نصاب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ تر وہ طلباء کا میاب ہو تے ہیں جو اس نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کر تے ہیں۔ جو طلباء ریاستی نصاب کے مطابق انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کرتے ہیں وہ نیٹ امتحان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان ساری عملی دشواریوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسابقتی امتحانات کی ہیت کو تبدیل کیاجائے۔یہ ایک قسم کا طلباء پر بوجھ ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے طلباء ، شہروں میں کارپوریٹ کالجوں میں پڑھنے والے طلباء کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ نیٹ ، سرمایہ دار طبقوں کے لئے فائدہ مند ہوتا جا رہا ہے۔ جو طلباء اس سال سر فہرست آئے ہیں وہ لاکھوں روپئے دے کر اپنی سیٹ ایم بی بی ایس کے لئے محفوظ کئے ہیں۔ ایسے طلباء میرٹ اور صلاحیت کے بجائے پیسے دے کر ڈگریاں حاصل کریں گے تووہ قوم و ملک کا کیا بھلا کر سکیں گے۔ جس بڑے پیمانے پر اس امتحان میں دھاندلیاں ہوئیں ہیں ،اس سے ذہین طلباء کا جو نقصان ہوا ہے اس کی پابجائی کیا حکومت کر سکتی ہے؟ 1563طلباء کو جو گریس مارکس دئے گئے لازمی بات ہے کہ کسی حقدار کا حق چھین کر یہ کام کیا گیا۔ ملک کا نوجوان اب حسرت ویاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دہلی کی چلچلاتی دھوپ میں ملک کے نوجوان جنتر منتر پر جمع ہوکر حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ نیٹ۔ 2024کی مکمل تحقیقات کرائے اور جو لوگ پیپر لیک میں ملوث ہیں انہیں کڑی سزا دی جائے۔ حکومت کو ملک کے کروڑوں بچوں کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے مطالبات پر سنجیدگی کا مظاہر کرلینا چاہئے۔ نوجوان قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں ان کی حق تلفی کو گورارا کرلیناملک اور قوم کو تباہ کرنا ہے۔
(رابطہ۔ 9885210770)
[email protected]