سبدر شبیر
ریحان کو نیلا رنگ پسند نہیں تھا، مگر اس کی زندگی پر نیلا رنگ حاوی ہو چکا تھا۔ موبائل کی نیلی روشنی، لیپ ٹاپ کی نیلی اسکرین، سوشل میڈیا ایپس کی نیلی تھیمز اور آسمان کا وہ نیلا رنگ جسے وہ برسوں سے چھت سے بھی نہیں دیکھ پایا تھا۔ اس کے کمرے میں کھڑکی تھی، مگر وہ اکثر بند رہتی تھی۔ پردے کے پیچھے ایک دنیا تھی، جس سے وہ کٹ چکا تھا۔
ریحان ایک کامیاب سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ دن کے بارہ گھنٹے اسکرین پر اور باقی کے بارہ گھنٹے سکرولنگ، نوٹیفکیشنز، میمز، ڈیجیٹل گفتگو، ایموجیز اور بے جان مسکراہٹوں میں گزرتے تھے۔ وہ ٹیکنالوجی کی دنیا کا ماہر تھا، مگر زندگی کی سادہ حقیقتوں کا اناڑی۔
ماں کو گزرے چھ سال ہو چکے تھے۔ والد نے دوسری شادی کر لی تھی اور بہن اپنی دنیا میں مگن تھی۔ ریحان نے یہ سب “سمجھداری” کے نام پر قبول کر لیا تھا۔ اس نے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک ڈیجیٹل قلعہ تعمیر کیا تھا، جہاں کوئی سوال تھانہ کوئی تقاضا تھا، صرف سکرین کی فرمانبردار روشنی تھی جو ہمیشہ اسی رفتار سے جلتی تھی۔
مگر وہ دن الگ تھا۔ اس دن جب ریحان کی لیپ ٹاپ اسکرین اچانک نیلی ہو گئی تو وہ بدنام زمانہ “Blue Screen of Death” نمودار ہوئی، جو بتاتی ہے کہ نظام کریش کر گیا ہے۔ ریحان نے بارہا ری اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی، مگر سب بے سود۔
یہ صرف ایک مشین کا کریش نہیں تھا، یہ روزمرہ کی ایک عادت کا، ایک نظامِ زندگی کا کریش تھا۔ ریحان کا اندر خالی لگنے لگا۔ اس دن اس کے موبائل پر بھی کوئی نوٹیفکیشن نہیں آیا۔ نہ واٹس ایپ، نہ انسٹاگرام اور نہ فیس بک۔ جیسے پوری دنیا نے اچانک ریحان کو بھلا دیا ہو۔
اس نے کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔ باہر پہلی بار دیکھنے کی کوشش کی۔ آسمان پر ہلکی بدلیاں تھیں، شام کا وقت تھا اور ہوا میں نمی تھی۔ نیچے گلی میں ایک بچہ سائیکل چلا رہا تھا۔ اس کی ماں بار بار پکار رہی تھی۔۔۔۔۔۔
“گر جائے گا بیٹا! آ جا، کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے!”
ریحان وہ آواز سن کر چونک گیا۔ اس نے سوچا، اسے آخری بار کب کسی نے ایسے بلایا تھا؟ اسے یاد نہیں آیا۔
اگلی صبح دروازے کے نیچے ایک پرانا لفافہ ملا۔ اس پر کوئی نام نہیں تھا، صرف ایک خط تھا۔
“اگر تم یہ خط پڑھ رہے ہو تو مبارک ہوکہ تم اب بھی زندہ ہو۔ مگر زندہ رہنے کے لیے صرف سانس لینا کافی نہیںبلکہ کسی کی آنکھ میں دیکھ کر ’’میں ہوں‘‘ کہنا سیکھو۔ کسی کی خاموشی میں اپنا عکس تلاش کرو۔ یہ دنیا اتنی ڈیجیٹل نہیں ہوئی کہ لمس کے بغیر گزر جائے۔”
ریحان یہ پڑھ کر ساکت ہو گیا۔ وہ خط کس نے لکھا؟ اسے اندازہ نہیں تھا۔ مگر اس کے الفاظ اُس کے دل کے اس کونے کو چھو گئے جہاں برسوں سے خاموشی جم چکی تھی۔
اسی شام اس نے اپنا پرانا بکس کھولا۔ اس میں ماں کی کچھ چیزیں تھیں ۔ ایک دوپٹہ، ایک رومال اور بچپن کی ایک تصویر۔ تصویر میں وہ ماں سے لپٹا ہوا ہنس رہا تھا۔ وہ ہنسی اب کسی اسٹیٹس میں محفوظ نہیں تھی۔ وہ حقیقی تھی۔
ریحان نے ایک فیصلہ کیا۔ اس نے آفس کو رِیزائین ای میل بھیجا۔ دوستوں کے چیٹ گروپس سے نکل گیا۔ سوشل میڈیا ایپس ڈیلیٹ کیں اور ایک چھوٹے گاؤں کا ٹکٹ خریدا۔
یہ وہی گاؤں تھا جہاں اس کی نانی اب بھی رہتی تھیں۔ برسوں سے بیمار، کمزور اور اُس کا انتظار کرتے ہوئے۔ جب ریحان گاؤں پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ اندھیرے میں وہ دروازے پر گیا اور ہلکی سی دستک دی۔ اندر سے ایک مدھم آواز آئی۔۔۔
“کون ہے؟”
“نانی… میں ریحان ہوں۔”
دروازہ کھلا ایک جھریوں بھرا ہاتھ باہر نکلا اور اسے تھام لیا۔ نانی نے کچھ نہیں کہا۔ صرف اسے سینے سے لگا لیا۔ اُس ایک لمحے میں ریحان کی ساری ڈیجیٹل زندگی پگھل گئی۔ وہ گر پڑا، رو پڑا، اور پہلی بار کسی کے لمس میں پناہ لی۔
اگلے کئی دن وہ گاؤں میں رہا۔ نانی کے ساتھ بیٹھ کر چولہے پر چپاتیاں سینکیں، باہر کھیتوں میں ہوا کو محسوس کیا، بچوں کو کھیلتے دیکھا اور سب سے بڑھ کر ـ خود کو محسوس کیا۔
ایک دن گاؤں کے مدرسے کے باہر بیٹھا تھا، جب ایک بچہ پاس آیا: “انکل، کیا آپ کے پاس فون ہے؟ مجھے گیم کھیلنی ہے۔”
ریحان نے مسکرا کر کہا: “نہیں بیٹا، میرے پاس اب صرف وقت ہے، آو کچھ کہانیاں سنتے ہیں۔”
وہ بچہ حیران ہو کر بیٹھ گیا۔ کہانی شروع ہوئی۔ الفاظ بہنے لگے۔ کہانیوں کے بیچ میں جب کبھی بچہ ہنستا، ریحان کو یوں لگتا جیسے وہ نیلی اسکرین سے باہر کی دنیا میں واپس آ گیا ہو۔
ماہ و سال بیتے۔ ریحان نے وہیں ایک چھوٹا اسکول کھولا، جہاں بچوں کو نہ صرف تعلیم دی جاتی، بلکہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے سبق بھی سکھائے جاتے۔ جیسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا اور ریت پر ننگے پاؤں چلنا۔
ایک دن جب وہ گاؤں کے چوراہے سے گزر رہا تھا، ایک نوجوان اس کے پاس آیا: “سر، آپ کے انسٹاگرام پر فالو کیسے کریں؟”
ریحان مسکرا کر بولا: “مجھے فالو نہ کرو، خود کو تلاش کرو۔ میں تو بس نیلی اسکرین سے باہر آیا ہوں۔ تم بھی آؤ، یہ دنیا بہت خوبصورت ہے۔”
ایک پرانا ساتھی جو ریحان کا کولیگ رہ چکا تھا، اسے شہر سے ڈھونڈتا ہوا گاؤں آ پہنچا۔ وہ حیران تھا کہ ایک ایسا شخص، جو کبھی دنیا کے ٹیکنالوجی سیمینارز میں لیکچر دیتا تھا، اب بچوں کو مٹی سے محبت کرنا سکھا رہا ہے۔ اُس نے ریحان سے کہا۔۔۔
“کیا تم نے سب کچھ چھوڑ کر صرف سادگی حاصل کی؟”
ریحان نے زمین پر انگلی سے ایک دائرہ بنایا اور بولا”نہیں، میں نے کچھ نہیں چھوڑا۔ میں نے صرف اصل کو اپنایا۔ جسے ہم سادگی سمجھتے ہیں، وہی اصل زندگی ہے۔”
اس لمحے اس کا فون بجا۔ برسوں بعد، اس نے فون چلایا۔ ایک ویڈیو کال تھی بہن کی۔ وہ رو رہی تھی: “بھائی، ابو نہیں رہے… آخری وقت میں آپ کا نام لے رہے تھے۔”
ریحان کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے فون بند کیا، نانی کے قدموں میں بیٹھ کر کہا: “مجھے جانا ہوگا نانی، مگر اس بار میں بھاگنے کے لئے نہیں جا رہا بلکہ لوٹنے کے لئے۔”
���
موبائل نمبر؛9797008660
اوٹو اہربل کولگام ،کشمیر،[email protected]