پرویز مانوس
فرشتے کے نرم، ملائم ، شفاف پروں کی ہلکی ہلکی سرسراہٹ ماحول کو مہکا رہی تھی۔ ننھا بچہ اپنے سونے جیسے سُنہری بالوں کو چھو رہا تھا اور آسمان کے اس روشن کنارے پر بیٹھا تھا جہاں وقت کا کوئی وجود نہیں۔ سب کچھ پُرسکون، خالص اور ابدی سکون سے بھرپور تھا۔ بچہ حیرت سے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اس فرشتے کی باتیں غور سے سن رہا تھا جو اس کے قریب بیٹھا اسے ایک نئی دنیا کے بارے میں بتا رہا تھا۔
تم کیا سوچ رہے ہو؟
یہی کہ کچھ روز بعد تم مجھ سے جُدا ہوجاؤ گے اور میں پھر سے تنہا ہو جاؤں گا-
لیکن میں تم سے جُدا کیوں ہوجاؤں گا؟
فرشتہ نرم آواز میں بولا، “دیکھو، تم ابھی خدا کے پاس ہو۔ لیکن جلد ہی تمہیں ایک نئی جگہ جانا ہوگا۔
نئی جگہ؟ بچہ اُس کی جانب حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولا-
ہاں ۔۔۔!وہ دیکھو…” فرشتے نے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔
بچے نے سوالیہ نظروں سے کہا، “یہ کون سی جگہ ہے؟”
فرشتے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “اسے دنیا کہتے ہیں۔”
بچے نے دلچسپی سے پوچھا، “دنیا؟ وہاں کیا ہوتا ہے؟”
فرشتے نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا-
“وہاں چہل پہل ہے، رونق ہے۔ خدا کے بنائے ہوئے انسان ہیں۔ وہاں معبدے ہیں، پارکیں ہیں، ٹیلی ویژن ہے، کمپیوٹر ہے، موبائل فون ہے۔ غرض کہ ہر وہ چیز ہے جو عیش و عشرت کے لیے چاہیے۔”
فرشتے کی باتیں سُن کر اُس کا تجسس بڑھ گیا پھر وہ دنیا کے بارے میں مزید جاننا چاہتا تھا۔ اس نے کہا،
“مجھے دنیا کے بارے میں اور بتاؤ۔ وہ کیسی جگہ ہے؟”
فرشتہ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوا اور پھر بولنے لگا، “دنیا خدا کی بنائی ہوئی ایک خوبصورت تخلیق ہے، جہاں زندگی اپنی تمام رنگینیوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔”
“دنیا میں ایسے پہاڑ ہیں جو آسمان کو چھوتے ہیں۔ ایسے پہاڑ جیسے خدا نے زمین میں کچھ میخیں گاڑھ دی ہوں، ان پر برف کی سفید چادر بچھتی ہے اور سورج کی کرنیں انہیں چاندی جیسا چمکا دیتی ہیں۔ کہیں کہیں اونچے اونچے گھنے درخت ہیں جن میں پرندوں کے آشیانے ہیں، وہاں دریا بھی ہیں، جو پہاڑوں کے بیچ سے بل کھاتے ہوئے گزرتے ہیں اور اپنی شوریدہ آواز سے زندگی کی کہانی سناتے ہیں۔”
“سمندر اپنی گہرائی میں راز چھپائے ہوئے ہیں اور اس کی لہریں ساحل سے ٹکرا کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے دنیا کا سب سے خوبصورت گیت چھیڑ دیا ہو۔ وہاں باغ ہیں جہاں رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں، خوشبوئیں بکھرتی ہیں، تتلیاں منڈلاتی ہیں اور پرندے اپنی سریلی آوازوں سے فضا کو مسحور کرتے ہیں۔”
“دنیا کے دیہات میں سبزہ ہے، کسان ہیں جو زمین پر محنت کر کے فصلیں اگاتے ہیں۔ جن سے جنس پیدا ہوتا ہے اور وہی انسانوں کی خوراک ہے، وہاں کے درخت، پھل اور ہریالی دل کو سکون دیتے ہیں۔ شہروں کی بات کریں تو وہاں بلند و بالا عمارتیں ہیں، بازاروں کی چہل پہل ہے اور ہر طرف روشنیوں کا ہجوم ہے۔”بڑی بڑی قیمتی گاڑیا ں ہیں، بیوٹی پارلر ہیں، سنیما گھر ہیں، انسان کی تفریح کا ہر سامان میسر ہے-
اس کے علاوہ اور کیا ہے وہاں؟ بچے نے معصومیت سے پوچھا-
فرشتے نے مزید کہا، “دنیا میں انسان اپنی خوشیوں اور غموں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہاں شادیاں ہوتی ہیں، جہاں لوگ خوشی سے جھومتے ہیں، گانے گاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔ تہواروں پر چراغاں ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں۔”
“بچے پارکوں میں کھیلتے ہیں، جھولے جولتے ہیں، اور ان کے قہقہے فضا میں گونجتے ہیں۔ بڑی بڑی دانش گاہوں میں علم کی روشنی پھیلائی جاتی ہے۔ بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں جہاں لوگ کام پر جاتے ہیں، اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے محنت کرتے ہیں اور خواب دیکھتے ہیں۔”
فرشتہ تھوڑا سنجیدہ ہوا اور بولا، “لیکن یاد رکھو، دنیا صرف خوبصورتی اور خوشی کا ہی نام نہیں وہاں لوگ ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے ہیں اور نفرت بھی۔ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔”
یہ نفرت کیا ہوتی ہے؟ معصوم بچے نے اپنا چہرہ دونوں ہتھیلیوں میں لیتے ہوئے دریافت کیا-
“نفرت ۔۔۔۔۔؟ نفرت ایک شدید منفی جذباتی کیفیت ہے جو کسی شخص، چیز، یا نظریئے کے خلاف دشمنی، بےزاری یا کراہت کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ یہ جذبات عام طور پر مایوسی، تکلیف یا منفی تجربات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ نفرت کی بنیاد مختلف وجوہات پر ہو سکتی ہے، جیسے ذاتی نقصان، تعصب، خوف یا عدم برداشت۔
اچھا تو وہاں کے لوگوں میں نفرت بھی ہے؟
بالکل ۔۔۔۔! یہ تو ایک فطری جذبہ ہے –
اور کیا کیا ہے اُس دُنیا میں ؟
” اُس دنیا میں غربت بھی ہے، جہاں کچھ لوگ بھوکے سوتے ہیں، اور کچھ اپنی دولت کے غرور میں دوسروں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ وہاں جنگیں بھی ہوتی ہیں، جہاں زمین کے ٹکڑوں کے لیے، دریا میں بہتے ہوئے پانی کے لئے انسان ایک دوسرے کو مار ڈالتے ہیں۔”
“لیکن سب سے خاص بات یہ ہے کہ دنیا میں اختیار ہے۔ وہاں ہر انسان کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ اچھا بننا ہے یا برا، یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔”
بچہ حیرانی سے بولا، “یہ دنیاتو کافی عجیب اور دلچسپ جگہ لگتی ہے۔ لیکن یہ بتاؤ، کیا وہاں واقعی خوشی ملتی ہے؟”
فرشتہ مسکرایا، “ہاں، خوشی ملتی ہے، لیکن اسے پانے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔ دنیا کی خوبصورتی اس میں چھپی ہوئی ہے کہ انسان غموں کے ساتھ بھی مسکرانا سیکھ لیتا ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں سے طاقت حاصل کرتا ہے اور اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر کامیابی کی طرف بڑھتا ہے۔”
” یوں سمجھ لو دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ جو وہاں اچھے کام کرے گا، محبت بانٹے گا اور اپنے اندر کی روشنی کو دوسروں تک پہنچائے گا، وہی کامیاب ہوگا۔ اور جو نفرت اور خودغرضی کا شکار ہوگا وہ اپنے وجود کو دھندلا دے گا۔”
اچھے اور نیک کاموں کا اجر اُسے یہاں دیا جائے روزِ محشرکو ،
بچہ اب کچھ پُراعتماد نظر آ رہا تھا۔ اس کے دل میں دنیا کی خوبصورتی، چیلنجز اور امکانات کا نقشہ بن چکا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ دنیا میں جانا آسان نہیں، لیکن وہاں جا کر اپنے حصے کی روشنی پھیلانا زندگی کا مقصد ہوگا۔
بچہ خوش ہو کر بولا، “یہ تو بہت اچھی جگہ لگتی ہے۔ لیکن وہاں جا کر میں کیا کروں گا؟”
فرشتے نے سنجیدگی سے کہا، “تمہیں ایک گھر میں پیدا ہونا ہوگا، جہاں ماں باپ ہونگے جو تمہیں نازو نعم سے پالیں گے، تمہارے بہن بھائی ہوں گے جو تمہارے ساتھ کھلیں گے۔ گاڑیاں ہوں گی، خوبصورت بنگلے ہوں گے۔”
بچہ خوشی سے اچھلتے ہوئے بولا، “یہ تو بہت مزے کی بات ہے!”
فرشتہ مسکرایا، “ہاں، بالکل! لیکن دنیا میں جا کر تمہیں زندگی کے کچھ اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ کھیلنا، پڑھنا اور بڑا ہو کر ملازمت کرنا۔ پھر شادی ہوگی اور تمہارے اپنے بچے ہوں گے۔”
بچہ معصومیت سے بولا، “اور ماں باپ؟”
فرشتہ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر آہستگی سے بولا، “ماں باپ؟ اوہ… وہ بھی ہوں گے، لیکن آج کل اُس دنیا میں اولاد ماں باپ کو بھول جاتی ہے۔ انہیں اولڈ ایج ہوم یا آشرم میں چھوڑ آتی ہے۔”جہاں وہ سسک سسک کر تڑپ تڑپ کر تنہائی میں مر جاتے ہیں –
بچہ حیرت سے بولا، “کیا؟ وہی ماں باپ جنہوں نے بچے کو پیدا کیا، پالا، پڑھایا، اور بڑا کیا؟”
کہتے ہیں ماں کے پیروں کے نیچے جنت ہوتی ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے، پھر بھی اولاد ایسی حرکت کرتی ہے؟
فرشتہ اداسی سے بولا، “ہاں، دنیا کا یہی دستور ہے۔”
بچہ حیرت سے پوچھنے لگا، “یہ کیسا دستور ہے؟ کس نے بنایا یہ دستور؟”
فرشتہ نے جواب دیا، “یہ انسان کا بنایا ہوا دستور ہے۔”
بچہ غصے میں آ کر بولا، “انسان اتنا خودغرض کیسے ہو سکتا ہے؟”
فرشتہ بولا، “انسان صرف خودغرض نہیں، بلکہ بعض اوقات وہ اتنا خودغرض ہو جاتا ہے کہ جائیداد کے لیے اپنے بھائی کا قتل بھی کر دیتا ہے۔”
یہ قتل کیا ہوتا ہے؟
اُف………! کیا بتاؤں، یہ قتل ایک ایسا عمل ہے جس میں جان بوجھ کر یا کسی حادثاتی صورت میں کسی انسان کی زندگی ختم کی جاتی ہے۔ یہ ایک سنگین جرم اور اخلاقی طور پر مذموم فعل سمجھا جاتا ہے، جو دنیا کے تمام معاشروں اور قوانین میں سخت سزا کے قابل ہے۔دُنیا کی تاریخ کا پہلا قتل قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا کیا تھا _
یہ سُن کر بچہ کانپ اٹھا، “بھائی کا قتل؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”
فرشتہ کی آواز مزید مدھم ہو گئی، “کبھی کبھی تو وہ اپنی بہن کے ساتھ غیر انسانی فعل بھی کربیٹھتا ہے۔”
بچے کی آنکھوں میں معصومیت کی جگہ خوف نے لے لی۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بولا، “بس! میں یہ سب اور نہیں سن سکتا۔”
فرشتے نے نرم لہجے میں کہا، “کیوں؟ کیا سوچ رہے ہو؟”
بچہ بولا، “مجھے خدا سے بات کرنی ہے۔
لیکن تم خدا سے نہیں مل سکتے؟
کیوں نہیں مل سکتا؟
کیونکہ تم ابھی خدا کے نور میں ہی ہو، لیکن میں مل سکتا ہوں –
تو پھر جب تم خدا سے ملو، کہنا مجھے اپنے ہی نُور میں رہنے دے، میں اس غلیظ دنیا میں نہیں جانا چاہتا-،،
���
آزاد بستی ویسٹ نٹی پورہ سرینگرموبائل نمبر؛9622937142