شیخ افلاق حسین
دین اسلام میں نوجوانوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے، جوانی ایک عظیم نعمت ہے، اور یہ مقام اس لئے عطا کیا گیا ہے کیونکہ نوجوان وہ صلاحیت رکھتا ہے جو بزرگ میں نہیں ہوتی ہیں، اور یہ عمر کا وہ دور ہے جس میں یہ سب کچھ انجام دے سکتا ہے اور تاریخ نے اس دور کو Golden period سے تعبیر کیا ہے۔ وہ اس لئے کہ اس میں یہ توحید کا عَلَم بلند کرسکتا ہے اور باطل طاقت کا مقابلہ کرکے اس کو ختم کرسکتا ہے۔ جوانی کے قیمتی لمحات انمول ہوتے ہیں، یہ قوت و توانائی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ، اس لیے کامیابی کے کسی بھی امیدوار کی یہ ذمہ داری ہے کہ جوانی اللہ تعالی کی اطاعت میں گزارے اور جوانی کے شب و روز عبادتِ الہی سے بھر پور رکھے، قربِ الہی کی جستجو میں رہے، ہمہ وقت نفسانی اور شیطانی خواہشات کے مقابلے کیلئے جد و جہد کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو، آپ نے ان پانچ چیزوں میں بڑھاپے سے پہلے جوانی کا بھی ذکر فرمایا۔ نوجوانوں کی بہتری میں امت کی بہتری ہے۔ لہٰذا یہ امت اس وقت تک خوشحال ، معزز، کامیاب، اور بہتری کی طرف گامزن نہیں ہو سکتی جب تک اس امت کے نوجوان عہد اول کے جوانوں کی طرح نہ بن جائیں، ان کی دینی وابستگی اعلی ترین، زندگی بھی خوشحال، اور کسی بھی مفید اور نیک کام کیلیے جو ش جذبہ بھی دیدنی ہوتا تھا۔
شیخ سعدی کا مشہور قول ہے ’’درجوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری‘‘ کہ جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ اور طریق رہا ہے۔ ہم اگر اپنے زمانہ پرنگاہ ڈالیں تو ہر تنظیم، تحریک، جماعت اور فو ج میں نوجوانوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ان سوسائٹیز، تنظیموں کا مستقبل ان نوجوانوں سے جُڑا ہوا ہوتا ہے۔
الغرض نوجوان اپنے آپ پر نظر ڈالے کہ میں کس سمت کی اور جا رہا ہوں اور میری ذمّہ داری کیا ہے، اور میں کس حد تک اپنی ذمّہ داری سے انصاف کر رہا ہوں۔۔
<[email protected]