آج اگر ہم اپنے معاشرے کی نوجوان نسل کے فکر وکردار پر نظر ڈالتے ہیںتو ایسا دکھائی دیتا ہےکہ ہماری فکری پستی نے اُس کو ایک خاص دائرے میں ہی محدود کرکے رکھ دیا ہےاور بات محض اُن کےبہتر روزگار اور ذریعہ ٔمعاش تک محدود رہی ہے۔ ماضی پر اگر نظر ڈالیںتواُن وقتوں میں تعمیر ِقوم کے ساتھ ساتھ تطہیرِ فکر بھی نوجوان نسل کی تربیت کا حصہ ہوا کرتی تھی،جس کے نتیجے میں معاشرے امن و امان اور سلامتی کا گہوارہ تھے، نوجوانوںکو زمانے کے بہاؤ کے ساتھ بہنے کا شوق نہیں تھا ،اُن میں اپنی اساسی تعلیمات، تہذیبی اقدار اورمعاشرتی مفادات کے لئے زمانے کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ تھا،جو اُنہیں اپنے معاشرے کی ترقی کے لیے سرگرداں رکھتا تھااور جس کے باوصف وہ اپنی محنت و مشقت ،اہلیت،قابلیت ،عزم و استقلال اور فکری سوچ سے معاشرے اور قوم کا سر فخر سے بلند کر دیتے تھے۔لیکن آج جبکہ اس بدلتی دُنیا نے نوجوان نسل کوبڑے پیمانے پر اقتصادی مسائل سے درچار کردیا ہے ،تو ٹیکنالوجی کی جدید ترین شکلوں نے بھی اُسےمقاصد کی تبدیلی، ہدف سے بے توجہی اور وقت کے ضیاع میں غرق کردیا ہے، جس کے نتیجے میں آج کا نوجوان اپنے مقاصد، اہداف اور درست سمت سے ناآشنا ہوتا جارہا ہے۔ تیزی سے بگڑتے معاشی حالات نے نوجوانوں کو اجتماعیت کی ڈور سے کاٹ کر انفرادیت کی کرچیوں میں بکھیرکر رکھ دیااورکامیابی کا معیار محض بہتر معاش اورپُر تعیش طرزِ زندگی ہی بن گیاہے،اور اس انفرادی سطح کی سوچ نےاُسے، اپنوں کے احساس سے بھی کاٹ کر رکھ دیا ہے۔بے شک جدید ٹیکنالوجی سے نئی نسل کی اُنسیت نے اُس میںکئی صلاحیتیں پیدا کردی ہیں ، اُس کی رسائی معلومات کے مآخذ تک ہے اور ہر وقت حالات و واقعات سے اُس کی واقفیت رہتی ہےلیکن اس کے باوجود آج کا نوجوان پست ہمت بن چکاہے، ذرا سی ناکامی اُسے برداشت نہیں ہوتی،وہ محض کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی فکرمیں سرگرداں رہتا ہے۔ حالانکہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول، کالج، یونیورسٹی سےسر ٹیفکٹ یا ڈگری لینا نہیں بلکہ فکرو نظر کی وسعت ، عقل وشعور کی بینائی اور صحیح و غلط کو پرکھنے کی کسوٹی حاصل کرنےکے ساتھ تمیزو تہذیب کی پاسداری بھی ہے ،تاکہ تعلیم سے بہرہ مند ہوکر اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال اور پاسداری کی جاسکے۔مگر افسوس ! ہم اپنا سارا زور حصول تعلیم کے لیے صرف تو کرتے ہیںلیکن اصل تربیت کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں آج ہمیںعلم و آگہی کے مجسمے تو نظر آتے ہیں مگر اسکی روح میںاخلاق و تربیت کا فقدان ہے ۔ ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ تو بن رہے ہیں مگر تربیت یافتہ نہیں ۔ ہر شخص کتابی و کتاب خواں بننا چاہتاہے مگر صاحب ِکتاب بنتا ہو انظر نہیں آتا ، گویا اخلاقی و کرداری انسان کوئی نہیں بنتا ہے ۔بلکہ ہر کوئی نفس پرستی و مادیت پسندی کی طرف مائل نظر آرہا ہے ۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہی دکھائی دے رہی ہے کہ عصر حاضرکے ترقی یافتہ دور کے تقاضے کے مطابق جہاں ہم اپنی نوجوان نسل کے لئے جدید علوم کے حصول کے لئے ہرکوئی حد پارکرنے کی کوشش کرتےہیں۔لیکن اُس کی دینی و اخلاقی تعلیم کے لئے کوئی زحمت اُٹھانا گوار ا نہیں کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میںہمارا معاشرہ صالح اورفعال نہیں بن پا رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اپنا اخلاق بلند و بالا کرکےاپنی سیرت و کردارکی مثالیں پیش کریںاور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ ایک اچھے ملنسار،با اخلاق اور سماج و معاشرہ کا صالح و کامیاب فرد بن جائیں گے۔ والدین پر بھی لازم ہےکہ وہ اپنی اولاد کی سوچوں اور جذبوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان کی باتوں کو درخوئے اعتنا نہیںجانیں، ان کی ناکامی پر انہیں نظروں سے نہیں گرادیں، اُن پر اُنگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لیں۔معاشرے کا بھی فرض ہے کہ نوجوانوں پر الزام عائد کرنے کے قبل وہ اپنے والدین، اپنے آپ اور اپنے بچوں کا گہرائی سے جائزہ لیں تو یقیناً بہت کچھ حقائق کا اندازہ ہوجائے گا۔ہم سب جانتے ہیں کہ بچہ پیدائشی طور پر نہ اچھا ہوتا ہے نہ بُرا ، تربیت ہی اُسے بگاڑتی یا سنوارتی ہے۔