نورین کوثر۔منڈی،پونچھ
منشیات کی لت دور حاضر کا سب سے بڑا اور عظیم ترین المیہ ہے۔ اس نے زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ نشے کے آدی نہ صرف اپنی جان کے دشمن ہوتے ہیں بلکہ وہ سماج کے لئے بھی خطرہ بن جاتے ہیں۔ منشیات فروش ملک کے وہ دشمن ہیں جو نوجوان نسلوں کو تباہ کر کے ملک و ملت کے بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ انسان ایک بہتر ماحول میں رہنا پسند کرتا ہے جہاں وہ خود کی صحت، صفائی کے ساتھ ساتھ ایک صحت مند سماج کی بھی خواہش رکھتا ہے۔ اپنے ماحول اپنے معاشرے کو ہر طرح کی بُرائی سے دور رکھنا چاہتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بھی خود کو ہی نشے کی لت سے بچانے سے قاصر ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائی جو کئی نوجوانوں کو کھا گئی ہے، ایسے خطرناک حادثے ہماری آنکھوں کے سامنے روز بروز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آئے دن ایسے ہزاروں کیسز سامنے آتے رہتے ہیں جو کہ ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ اب اس برائی نے برے پیمانے پر یوٹی جموں کشمیرکے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ہمارے نوجوان مسلسل اس برائی میں ملوث ہو رہے ہیں۔یہ نوجوان نسلوں کو تباہ کر کے ملک و ملت کی بنیادتباہ کر رہی ہے۔ اب یہ برائی اس قدر عروج پہ ہے کہ ہر سکول، کالج،یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علم کو اس بُرائی سے محفوظ کرنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بن چکی ہے۔ نوجوانوں کا تیزی سے اس بُرائی کی طرف رجحان ایک بڑاالمیہ ہے۔
اس سلسلے میں ضلع پونچھ کے منڈی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان منیر(نام تبدیل) کے مطابق’’میں نے طالب علمی کے زمانہ میں بیڑی سیگریٹ پینا شروع کی تھی لیکن آہستہ آہستہ میں دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال بھی کرنے لگا اور میری طبیعت بہت زیادہ خراب ہونے لگی۔ میں اپنی زندگی کے اس مرحلہ پر پہنچ گیا جہاں سے میرا واپس لوٹنا مشکل ہوچکا ہے۔‘‘ یہ نوجوان ہمارے ملک کا سرمایہ ہے، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی پھر ایسا کیا ہے کہ ان کا نشے کی طرف رجحان ہوتا ہے؟چند لمحوں کے سکون کے لیے کیوں اپنی زندگی برباد کررہے ہیں؟ اس ملک میں رہنے والے ہر شخص کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس برائی کے خلاف قدم اٹھائے۔ تحصیل سرنکوٹ کا ایک نوجوان عادل(نام مخفی) چند ماہ قبل اپنی جان اسی منشیات کی وجہ سے گنوا بیٹھا۔وہ اپنے والدین کا اکلوتا سہارا تھا۔لیکن بُرے دوستوں کی مجلس نے اس نوجوان سے ایسا انتقام لیا کہ اُسے جان گنوانی پڑی۔ جہاں اسمارٹ فون وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے وہیں اس موبائل فون کی وجہ سے بہت سارے نوجوان اپنی زندگیوں کو تباہ کررہے ہیں۔اس بات میں بالکل بھی دورائے نہیں ہے کہ ضلع پونچھ کی پولیس اور انتظامیہ نشہ مخالف کاروائی تیز کر رہی ہے اور آئے روز کسی نہ کسی جگہ سے منشیات فروش پکڑے جاتے ہیں۔ اس تعلق سے ایک سماجی کارکن جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ’’والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر گرفت مضبوط کریں اور اپنے بچوں کی حرکات پر گہری نظر رکھیں۔انکے دوست و احباب کے تئیں بھی والدین کو خبردار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ اساتذہ بچوں کو صرف مقررہ اوقات میں تعلیم فراہم کرتے ہیں لیکن زیادہ وقت بچے اپنے والدین کے ہمراہ ہی رہتے ہیں۔ اس لئے اساتذہ سے زیادہ والدین کی ذمہ داری زیادہ ہےکہ وہ اپنے بچوں کو بہترین ماحول فراہم کریں۔ کیونکہ لڑکپن کے ایام میں زیادہ تر بچے بری صحبت کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتائج تاخیر سے سامنے آتے ہیں۔‘‘ایسا نہیں ہے کہ یہ برائی بہت پہلے سے یہاں ہے بلکہ ضلع پونچھ کے نوجوان گزشتہ چند سالوں سے اس برائی کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ یہاں اس سے قبل اگرچہ تعلیم کا معیار اتنا اچھا نہیں تھا لیکن نوجوانوں کے اندر یہ برائی نہیں تھی۔ جوں جوں تعلیمی بیداری عروج پکڑرہی ہے اسکے ساتھ ساتھ سماج میں یہ برائیاں بھی پروان چڑھ رہی ہیں۔ اس ضمن میں ضلع انتظامہ پونچھ کی جانب سے ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ یاسین چودھری کی قیادت میں گذشتہ ماہ منشیات مخالف ایک ریلی بھی نکالی گئی تھی۔ جس کا مقصد صرف اور صرف نوجوانوں کو تعلیم اور کھیل کی طرف راغب کرنا تھا اور نشے جیسی بُری بیماری سے بچنے کے پیغام کو جاری کرنا تھا۔بہرحال، ایک جانب جہاں ضلع انتظامیہ اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے کوشاں ہے وہیں عوام خصوصاًوالدین اور اساتذہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر کفالت کریں اور نوجوان نسل کو اس نشے جیسی برائی سے نجات دلائیں کیونکہ کسی بھی بُرائی کے خاتمہ کا ذمہ صرف حکومت کی نہیں ہے بلکہ اس میں سماج اور خصوصاً والدین کا اہم رول ہوتا ہے۔اگر جموں کشمیر سے نشہ کا خاتمہ کرنا ہے تو والدین کو آگے آنے کی ضرورت ہے،انہیں اپنے بچوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، ان کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ تب کہیں جاکر ہم اپنی نوجوان نسل کو اس بُرائی سے روکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔(چرخہ فیچرس)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)