بلاشبہ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے کا نوجوان طبقہ بے شمار مسائل، چیلنجز اور افراتفری کا شکار ہے ۔جس کے نتیجے میںوہ نہ صرف اپنی مقصدِ زندگی اور وقت کی اہمیت سے غافل اور لاپرواہ ہوگیا ہےبلکہ بے شمارقسم کی گمراہیوں ، بے راہ روی اور انحرافات کا شکار ہورہا ہے۔نوجوانوں کی زیادہ تر تعدادتعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گئی ہے، زیادہ سے زیادہ ایس ایس سی اور انٹر میڈیٹ مکمل کررہی ہے۔چنانچہ معاشرے میںبے راہ روی، بے اعتدالی، افراط و تفریط، قنوطیت، مایوسی، بزدلی اور بے حسی تقریباً ہر جگہ چھائی ہوئی ہے۔
جس کے نوجوان نسل کوصحیح رہنمائی بھی نہیں مل رہی ہےاوروہ اخلاقی خرابیوں اور جنسی غلط کاریوں کی طرف مائل ہورہی ہے۔اکثر نوجوان سگریٹ اور دوسرے نشہ آورچیزوں کے عادی بن گئے ہیںاور اپنا زیادہ تر وقت سڑکوں چوراہوں ، چبوتروں اور بیہودہ جگہوں پر گزار رہے ہیں۔ بات بات میں لڑائی جھگڑے کرنا، گالی گلوچ، توڑ پھوڑ، کھلے عام غلط و گندی حرکتیں کرناان کا شیوہ بن چکا ہے۔اپنے ماں باپ کے نا فرمانی،رشتہ داروں سے بے رُخی اور اپنے محلہ والوں سے تلخ کلامی اور بے ہودگی ان میں رچ بس گئی ہےاور نتیجتاً وہ اپنے گھروالوں کے لئے مصیبت اور بستی والوں کے لئے ناپسندیدہ بن گئے ہیں۔ حالانکہ جوانی زندگی کا بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے۔جس میں انسان بڑے بڑے مرحلے طے کرتا ہے اور ایسے انقلابات لاتا ہےجن سے ملک اور معاشرے کا فلاح و بھَلا ہوجاتا ہے۔
تاریخ گواہ ہےکہ دنیا میں عظیم انقلابات نوجوانوں سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ دراصل یہ وہ نوجوان تھے جنکی ماؤں نے اُن کی اچھی تربیت کی تھی، انہیں زندگی کا اصل مقصد بتایا تھا، جوانی کی اہمیت کا احساس دلایاتھا اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف کروایا تھا۔ لیکن آج ہمارے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہیں، اپنے والدین کی تربیت سے دور ہیں۔رات بھر جاگنا اور دن میں سونا اوربُری عادتوں میں مبتلا ہیں۔کئی تو کم عمری سے ہی چھوٹے چھوٹے جرائم کے عادی ہوتے جارہے ہیں، تعلیم اور کام کاج میں کوئی دلچسپی لیتے ہیںاور آٹھ دس گھنٹے اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا میں مصروف رہ کر ذہنی پراگندگی اور فحش و منکرات کے شوقین بن جاتے ہیں۔ ماں باپ بھی ان اولادوں سے تنگ آگئے ہیں کہ آخر ان کا سدھار کیسے ہوگا؟ذرا غور کریں کہ نوجوان ہمارے لئےقیمتی سرمایہ ہے اور اس سرمایہ کی حفاظت کرنا مجموعی طور پرہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ اہم مسئلہ انکی اصلاح اور تربیت کا ہے،جس سے ان کے کردار سازی اور ذہن سازی ہوسکے۔سرسری جائزہ لیا جائےکہ نوجوانوں کے بگاڑ میں آخر کون ذمہ دار ہے ؟ تو صاف نظر آتا ہے کہ اسکے بنیادی ذمہ دار اُنکے والدین اور گھر والے ہیں،جنہوں نے بچپن میںانہیںاچھی تعلیم و تربیت نہیں دی،دین سے واقف نہیں کرایا، اچھے اوربُرے کی تمیز نہیں سکھائی ۔اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو یقینا ًایسے نوجوان نیک اور صالح ہوتے۔ ان نوجوانوں کی اصلاح اور سدھار کے لئے ہم سب کو آگے آنا ہوگا۔
والدین، اساتذہ سر پرست، علماء کرام اور خود نوجوان طبقہ اپنی زندگی کے ایام کو غنیمت جانیںاور اِن نوجوانوں کی ذہن سازی کریں، انکے مسائل اور مشکلات سے کو سمجھیںاورانکی رہبری کے لئے مساجد، اسکولس اور کالجس میں کونسلنگ کریں ۔ ماں باپ کے لئےاپنے نو جوان لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور کرد ارسازی کے لئے فکر مند ہونا انتہائی ضروری ہے۔انہیں اپنی اولاد کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اُن کو ذمہ داریوں کا احساس بھی دلائیں چاہئے۔کوئی کاروبار، محنت و مشقت کا کام یا ملازمت سے وابستہ کرانے کی ہر ممکن کوشش کریں،انہیں ہرگز بے کار نہ رکھیں ۔
کچھ وقت علما ء کرام سے دین سیکھنے کے لیے نکالیں ، وقت کی قدر کریں اوراس کا صحیح استعمال کریں، اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کریں اور اپنے چھوٹے بھائی بہنوں سے شفقت اور پیار محبت سے پیش آئیں۔نوجوانوں کے لئے سب سے بڑے آئیڈیل اور نمونہ اُن کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ماں باپ کو پہلے اولاد کی تربیت کا کورس سیکھنا چاہئے۔اسلامی تعلیمات سے اولاد کو منور کرائیں اور واضح کریں کہ انسانیت کے تمام مسائل کا حل صرف قرآن و حدیث میں ہے اور یہی حقیقی نجات دہندہ ہے۔