غازی سہیل خان
کتاب ایک انسان کی بہترین دوست ہے وہ چاہے دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھی گئی ہو ۔لیکن رفتہ رفتہ نئی نسل جیسے جیسے جدید ٹیکنالوجی سے نزدیک ہوتی گئی ،ویسے ویسے کتاب اب نئی نسل کو دشمن لگنے لگی اور اس نسل نے انٹرنیٹ کو ہی اپنا دوست بلکہ چند نے تو شریک حیات کا درجہ عطا کر دیا ہے ۔جس کی وجہ سے عصر حاضر میں کتابوں اور لائبریوں کی جگہ انٹرنیٹ ،موبائل فون اور سوشل میڈیا نے لے لی ہے ۔عمومی طور بات کرنا تو دور کی بات ہے یہاں کی تعلیمی دانشگاہوں میں بھی مطالعہ کا ذوق نہیں اور نہ ہی اساتذہ کی طرف سے طلبہ کے لئے مطالعہ کی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ایک ادبی محفل میں ایک پروفیسر صاحب نے مطالعہ کے گھٹتے رحجان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیر یونی ورسٹی جو کہ جموں کشمیر کی سب سے بڑی دانش گاہ ہے، کے اطراف و اکناف میں لگ بھگ دو دورجن سے زائد ریستوارں اور دیگر کھانے پینے کی دکانیں موجود ہیں لیکن افسوس وہاں پر آپ ایک بھی کتابوں کی دکان نہیں پائیں گے، یعنی یہاں پڑھی لکھی نئی نسل ہوٹلوں میں کھانے پینے کو مطالعہ پر ترجیحی دیتے ہیں ۔معزز قارئین سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ کہ قومی سطح پر مطالعہ کے حوالے سے ہماری حالت کیا ہے ۔یہ تو مجموعی طور مطالعہ کی بات ہوئی اب نئی نسل میں چند طلبہ اور نوجوان اگر پڑھتے بھی ہیں تو وہ انگریزی میں ہی پڑھنا پسند کرتے، جس کی وضاحت میں کرنے جا رہا ہوں ۔ایک بات میں یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم کسی زبان کے خلاف نہیں ہیں تاہم اپنی قومی ،مذہبی ،رابطے کی زبان کو چھوڑ کر کسی اور زبان ہی کو ترجیحی دینا انصاف کے تقاضوں کے خلاف سمجھتا ہوں ۔
گذشتہ دنوں ہمارا گُزر شہرِسرینگر کےمشہور و معروف اور مصروف ترین علاقےجسے کشمیر کا دل بھی کہا جاتا ہے،’’ لال چوک‘‘ سے ہوا اور وہاں ریڑی پر ایک نوجوان کو کتابیں فروخت کرتے ہوئے دیکھا،ریڑی پر تو بہت سلیقے سے بہت ساری کتابیں موجود تھیں جوکہ سب کی سب انگریزی زبان کی تھیں،اردو کی کوئی کتاب نظر میں ہی نہیں آرہی تھی۔اس سلسلے میں ہم نے اُس نوجوان ،جوکہ پڑھا لکھا لگتا تھا، سے بات کرنا چاہی توابتداً چند سوالات پوچھے جانے کے جواب میں اُس کُتب فروش نوجوان کا کہنا تھا کہ ’’سوشل میڈیا کے بڑھتے استعمال سے اب کشمیر کی پڑھی لکھی نوجوان نسل کتابیں بہت کم ہی پڑھتے ہیں ۔ ابھی ہم بات جاری ہی رکھے ہوئے تھے کہ اس دوران میرے ایک ساتھی کی نظر جب اُس کے کتابوں کی ریڈی پر پڑی تو ہم یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ اس کی کتابوں کی ریڈی پر اُردو کی کوئی بھی کتاب برائے فروخت نہیں تھی۔ میں من ہی من میں سوچنے لگا کہ جس ریاست کی سرکاری زبان اُردو ہے ،جہاں کی اقلیتی آبادی کا اسی فیصد سے زاید اسلامی لٹریچر کا خزانہ ہے ،جہاں اُردو رابطے کی زبان ہے، جہاں کی صحافت اُردو میں ہی ہوتی ہو،وہاں کے بازاروں میںاب اُردو کی کتابیں شاید نایاب ہونے جا رہی ہیں، اللہ نہ کرے ۔اس کی وجہ پوچھےجانے کے بعد اس نوجوان کتب فروش نے کہا کہ دو سال قبل ہی میں نے اُردو کتابوں کو فروخت کرنابند کر دیا ہے کیوں کہ اگر کوئی نوجوان مجبوراً کوئی کتاب پڑھنے کے لئےخریدنا ہی چاہتا ہے تو وہ محض انگریزی کتاب کو ہی ترجیح دیتا ہے، جبکہ زیادہ لوگوں میں اب کتابیں پڑھنے کا شوق ہی نہیں رہا ہے۔گویا اب پڑھے لکھے لوگوں،سرکاری ملازموں اور کالج و اسکولی طلبا و طالبات میں کتب بینی کا رحجان کافی حد تک کم ہو گیا ہے، زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ اور موبائل فون کا ہی استعمال کرتے رہتے ہیں۔اس نوجوان ریڑی والے نے مزید کہا کہ آج کل ہم مارکیٹ کے لحاظ سے بھی کافی کم قیمت میں کتابیں بیچتے ہیں ،یہاں تک کہ ہم کتابوں کی قیمت میں پچاس فیصد سے بھی زائد رعایت دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی لوگ کتابیںپڑھنے کے لئے آمادہ نہیں ہو رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اس کتب فروش نے کہا کہ میرے خیال میں اب جموں کشمیر کے اسکولوں میں اُردو زبان کو کم ہی پڑھایا جا رہاہے بلکہ چند جگہوں پر جان بوجھ کر اس زبان کو نظر انداز ہی کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم نے اُردو کتابیں فروخت کرنا بند کر دی ہیں ۔موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج سے پہلے محض پانچ سال ہم بہت زیادہ تعداد میں اُردو کی کتابیں بیچتے تھے اور لوگ پڑھتے بھی تھے اور اشتیاق سے خریدتے بھی تھے۔ لیکن اچانک نہ معلوم کیوں؟اب نوجوان قارئین اُردو سے انگریزی کی طرف کیسے شفٹ ہو گئے ہیں۔میری اپنی ذاتی رائے کے مطابق بھی آج کل کی نئی نسل اُردو زبان پر انگریزی کو ترجیح دیتی ہے ،اور اُردو اب زیادہ تر مذہبی طبقہ ہی پڑھنا پسند کرتا ہے۔ اس مذہبی طبقے میں بھی ایک ایسا گروہ ہے جو دیگر مسالک کے خلاف مواد جمع کرنے کے لئے اُردو کی قدیم مذہبی کتابوں کا سہارا لے کر اُن کو غلط ٹھہرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ،وہیں چند لوگ جو کہ اُردو سے وابستہ ہیں یا جو اس زبان کے ذریعے روزگار کماتے ہیں، وہ بھی اپنے بچوں کو اس زبان کو پڑھنے کی ترغیب نہیں دیتے ۔ایک بڑی وجہ میرے نزدیک یہ بھی ہے کہ ہر کسی حکومت نے آج تک اُردو دشمنی کا ہی ثبوت دیا ہے اور اس زبان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کر کے اس میٹھی اور پیاری زبان کو اس حال پر پہنچا دیا ہے ۔اس سلسلے میں راقم نے چند تجزیہ نگاروں ،اسکالروں ،اور صحافیوں سے اُردو زبان سے نوجوان نسل کی دوری کے متعلق جاننے کی کوشش کی ،جن میں سے چند کی رائے کو میں یہاں پیش کرنا چاہوں گا ۔وادی کے مشہور ماہر تعلیم اور اسلامی اسکالر ڈاکٹر شکیل شفائی کا میرے ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ’’یہ بات مطلقاً صحیح نہیںکہ ہماری نوجوان نسل اُردو کی طرف راغب نہیں ہے ،البتہ یہ بات صحیح ہے کہ اُن کی اکثریت انگریزی کو ترجیح دیتی ہے ۔اس کی میرے نزدیک چند وجوہات ہیں ۔۱۔انگریزی کے ساتھ (ایسا وہ سوچتے ہیں ) اُن کا روزگار وابستہ ہے ۔۲۔اُردو پڑھنے کی صورت میں وہ یہاں کی مخصوص تقلیدی نفسیات کے تحت سوچتے ہیں کہ ہمیں پڑھا لکھا تصور نہیں کیا جائے گا۔۳۔وہ انگریزی زبان کے ذریعے اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا رعب قائم کرنا چاہتے ہیں ۔۴۔اُن کے خیال میں اُردو صرف شعر و شاعری کا نام ہے، جس سے کچھ دیر کے لئے دل تو بہلایا جا سکتا ہے البتہ اس کو مستقل موضوع نہیں بنایا جا سکتا۔۵۔معاصر مغربی تہذیب کے مظاہر سے اُردو کی تہذیب میل کھاتی نہیں دِکھتی، لہٰذا انہیں محسوس ہوتا ہے گویا وہ اُردو پڑھ کے کسی پرانی دنیا میں واپس چلے گئے ہیں ۔۶۔اُردو چونکہ صرف زبان کی حد تک پڑھائی جاتی ہے ،دوسرے علوم کی تدریس انگریزی میں ہوتی ہے۔ لہٰذا انگریزی کی طرف ان کا مائل ہو جانا قرائن صواب ہے ۔‘‘ایسے ہی ایک اور نوجوان صحافی اور اسکالر جاوید شاہین نے راقم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ دینی رحجان میں کمی کے باعث نوجوان طبقہ اس بات سے بے گانہ ہے کہ اُردو ہماری دینی علوم کی وارث ہے ،وہیں مسلم دشمن قوتوں نے اُردو کے دامن کو مزید تنگ کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس زبان کو مزید محدود کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ایک المیہ برصغیر میں یہ بھی ہے کہ انگریزی زبان کو فر فر بولنے والے کو دانشور تصور کیا جاتاہے یعنی یہ ذہانت ناپنے کا ایک آلہ تصور کیا جا رہا ہے ۔اسی طرح کا ایک سوال میں نے نوجوان محقق ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر سے جب پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’میں سرے سے اس خیال کے ہی مخالف ہوں ،کیوں اُردو پڑھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے ،کالج اور یونی ورسٹی میں طلباء کی تعداد دیکھیں ۔یہ الگ بات ہے کہ سنجیدگی کم نفوس میں دکھتی ہے لیکن یہی معاملہ انگریزی پڑھنے والوں کے ہاں بھی ہے ۔‘‘ میرے استادِ محترم ڈاکٹر الطاف انجم کا کہنا تھا کہ ’’اُردو سے لگائو رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔اگر طلبہ کسی وجہ سے انگریزی کی طرف مائل ہوتے بھی ہیں لیکن عمر کے کسی پڑائو پر انہیں اُردو کی طرف رجوع کرنے کی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے ۔اس کی وجہ ظاہر ہے جس کے لئے ہم سب اُردو کا معاملہ ہر سطح پر اُٹھاتے ہیں ۔‘‘ایک اور محب اُردو عاصم رسول کا کہنا تھا کہ’’موجودہ تعلیمی نظام کو کچھ اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ تعلیم کا مقصد محض حصول ِ روزگار بن گیا ہے ۔ظاہر ہے اس وقت انگریزی زبان کا غلغلہ ہے ،انگریزی زبان و تہذیب پوری دنیا میں غالب تہذیب کے طور پر راج تاج کر رہی ہے ۔نیز عالمی سطح پر غالب تہذیب و زبان مقامی تہذیبوں و زبانوں کو دائرہ حصار میں لینا ،اپنا نا قابل تنسیخ حق جانتی ہے ۔اسی چیز کا مشاہدہ ہم اپنی سر کی آنکھوںسے کر رہے ہیں ۔انگریزی میں طوطے کی رٹ میں دو چار الفاظ بولنے والا اعلیٰ تعلیم یافتہ یا قابل گردانا جاتا ہے اور اُردو زبان کو وسیلہ اظہار کرنے والے کو ہمارے سماج میں وہ اعتبار و اعتماد حاصل نہیں ہو پاتا ،یہی وہ ذہنی غلامی اور مرعوبیت ہے جس کی یہ سب کرشمہ سازی ہے ۔اس ماحول میں ہماری نوجوان نسل اپنی دینی اور ’’سرکاری‘‘زبان سے اغماض برت کر انگریزی کی طرف میلان نہ دکھائے تو اور کس چیز کی اُمید کی جا سکتی ہے ۔؟‘‘یہ بات بھی واضح رہے کہ جموں کشمیر کی سرکاری زبان اُردو ہے اور دفعہ 370؍کی منسوخی کے بعد اور بھی چند زبانوں کو یہاں سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ چند تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بھی ایک طرح کی اُردو کے خلاف سازش ہی رچی گئی ہے ۔علاوہ ازیں آج بھی جموں کشمیر میں سب سے زیادہ اخبارات اُردو زبان میں ہی چھپتے ہیں ،وہیں یہاں کے جو انگریزی کے چند بڑے موقر اخبارات ہیں اُن کے جو نیوز پوٹلز ہیںاُن میں بھی رپورٹنگ کے دوران اُردو زبان ہی استعمال کی جاتی ہے ۔لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کے صحافتی ادارے اور اُردو کے ذریعے روزگار کمانے والے لوگ اُردو زبان کی اہمیت و افادیت کو نوجوان نسل تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں، وہیں انتظامیہ بھی اس حوالے سے سرد مہری کا مظاہرہ کرتی نظر آرہی ہے ۔اب ایسے میں اُردو زبان و ادب اور صحافت کا مستقبل کیا ہوگا، وہ مجھے معلوم نہیں۔ تاہم میں اتنا کہوں گا کہ اگر ہم نے اپنی نوجوان نسل کو اُردو زبان و ادب سے نا آشنا رکھا تو ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں ۔اس کالم کے اختتام کے بعد میں چاہوں گا کہ اگر کوئی محب ِ اُردو اس کالم کا انگریزی ترجمہ کر کے یا کسی انگریزی جاننے والے سے کروا کے انگریزی پڑھنے والے نوجوانوں تک پہنچنانے کی کوشش کرتا ہے ،تو میں اُس کا احسان مند رہوں گا ۔اس حوالے سے وہ میرے ذاتی نمبر پر رابطہ بھی قائم کر سکتا ہے ۔
(رابطہ ۔7006715103)
[email protected]