ہارون ابن رشید۔ ہندوارہ
بقول علامہ اقبال’’ یہ مسلمان ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ‘‘آج مسلم معاشرے کا حال اتنا خراب ہوچکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا حق مارنے کی تلاش میں بھی ایمان کا سودا کر دیتے ہیں۔ جو تڑپ ،جو درد،بےچینی اور بے قراری رب کائنات کے لئے ہونی چاہیے تھی ،وہ پیسوں کے لئے ہونے لگی ہے۔ہماری تربیت اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ ہم ایک وقت کی نماز چھوٹ جانے پر تڑپ اُٹھے، ہمیں تو مہینے گزر چکے ہیں نمازوں کوچھوڑے ہوئے۔ ہم صبح سویرے اٹھنے کے بجائے گیارہ بارہ بجے اٹھتے ہیں۔ والدین ،بھائی بہن، بیوی اور بچوں کووقت دینے کے بجائے موبائل فون کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔ نوجوان مسجد اور مدرسے کے بجائے پارکوں اورریسٹورنٹوں میں بیکار گھومتے رہتے ہیں۔ لڑکیاں بن سنور کر بے پردہ پارکوں اور بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں ،سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے ناجائز دوستیاںجوڑنے لگے ہیں۔سن کو محسوس کرتے ہیں کہ (Music )زندگی کے مسائل میں الجھنے ہوئے لوگ ذکر الٰہی کرنے کے بجائے میزوکوہ تھوڑی دیر کے لئے اپنی پریشانیوں کو بھول جائیں گے پھر سکون کی نیند سو جائیں گے۔ افسوس آج اولادکی تربیت نہ ہونے کے باعث ہمارا مسلم معاشرہ غیر مسلم معاشرے کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ کبھی فلمیں بنا کر توجانا (Center Gem ) بنا کر۔ آج کل کے نوجوان مکتب جانے کے بجائے جیم سنٹر (Tok Tik )کبھی ٹک ٹاک ضروری سمجھتے ہیں۔ افسوس صدا افسوس کہ یہ سب آج کے معاشرے کی پہچان بنتی جارہی ہے۔ نشے کی لت جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح دن بہ دن پروان چڑھتی ہوئی برائیوں کی بنیاد ہے۔ آج ہمارے دلوں میںکے شکار ہو چکے ہیں۔ معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گاکہ (Depression )سکون نہیں ہے۔ ہم ڈپریشن مصیبتوں اور پریشانیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ آج ہماری نسل نو کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی آخرت کو سنوارنےکے بجائے دنیا سنوارنے کی فکر میں لگے ہیں اور یہی ہمارے دنیا وآخرت کا خسارہ ہے۔ آج مسلمان اپنےآپ پرغور کریں کیا ہم با خالق اور با تہذیب معاشرے کے باسی کہاںلئے جانے کے قابل ہیں۔
[email protected]