سرینگر// فوج نے کہا ہے کہ سال 2018میں ریاست میں191نوجوان تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوئے۔فوج کے مطابق جنوبی کشمیر کے پلوامہ، شوپیان ، کولگام اور اننت ناگ اضلاع کے علاقے جنگجوئوں کے لئے زرخیر ثابت ہورہے ہیں جہاں پر آئے روز نوجوان بندوق اور تشدد کی طرف بہ آسانی مائل ہورہے ہیں۔ فوج کے ایک سینئر افسر نے ایک خبر رساں ادارے کو تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برس 191نوجوانوں نے جنگجوئوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے تشدد اور بندوق کا راستہ اختیار کیا۔انہوںنے بتایا کہ سال 2018میں وادی کشمیر کے حساس مانے جانے والے اضلاع پلوامہ، شوپیان، کولگام اور اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے 191نوجوانوں نے بندوق اُٹھاکر جنگجوئوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔ فوج کے سینئر افسر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے جنوبی کشمیر کے چاروں اضلاع جنگجوئوں کے لئے نرسری ثابت ہورہے ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کے چاروں اضلاع سے جنگجوئوں کو بڑی تعداد میں افرادی قوت مہیا ہورہی ہے جہاں پر آئے روز نوجوان بندوق اُٹھا کر عسکریت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔فوج کا کہنا ہے کہ سال 2018میں جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوئے نوجوانوں کی تعداد سال2017کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایاکہ سال 2017میں وادی کشمیر میں 126نوجوانوں نے جنگجوئیت کا راستہ چنا تھا تاہم سال 2018میں اس تعداد میں مزید 65کا اضافہ دیکھنے کو ملا جو کہ سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے تشویش ناک معاملہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ وادی کشمیر میں فی الوقت حزب المجاہدین اور لشکر کو اچھی خاصی افرادی قوت میسر ہے کیوں کہ زیادہ تر نوجوان انہی دو عسکری گروپوں میں شامل ہوتے ہیں۔فوجی افسر نے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ 191جنگجوئوں میں سے 139کا تعلق جنوبی کشمیر سے ہے جن میں سے صرف پلوامہ ضلع سے 59نوجوانوں کا تعلق ہے۔ انہوںنے کہا کہ سال 2016میں وادی کشمیر سے 88نوجوان جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوئے تھے اور تب سے مسلسل نوجوانوں کا رجحان جنگجوئیت کی طرف بڑھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2016کے بعد سے وادی کشمیر میں نوجوانوں کو جنگجوئیت کی طرف رجحان تشویشناک حد تک بڑھا جوکہ سیکورٹی ایجنسیوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔فوجی آفیسر کا کہنا تھا کہ سال 2014اور 2015میں بالترتیب 53اور 66نوجوانوں نے بندوق اُٹھاکر تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2011میں یہ تعداد انتہائی قلیل تھی کیوں کہ اُس وقت صرف 23نوجوانوں نے جنگجوئیت کا راستہ اپنایا تھا۔اسی طرح اس تعداد میں سال 2012اور 2013میں کمی دیکھنے کو ملی جس میں بالترتیب21اور 16نوجوان ہی جنگجوئیت کی طرف مائل ہوئے تھے۔فوجی آفیسر نے انکشاف کیا کہ ہمارے پاس جو اعداد و شمار موجود ہیں وہ گرفتار کئے گئے جنگجوئوں سے پوچھ تاچھ کرنے ،تکنیکی اور مصدقہ ذرائع سے ہی موصول ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2018میں فوج نے جنگجو مخالف آپریشنوں کے دوران 257جنگجوئوں کو جاں بحق کردیا۔