قیصر محمود عراقی
دورِ حاضر میں جہیز کا مطالبہ عام ہوتا جارہا ہے اور جو عورت کم جہیز لائے اسے کوسنے سے لیکر ستانے ، طلاق دینے ، یہاں تک کہ جلانے اور مارڈالنے تک کے واقعات کی خبریں معمول ہیں۔ صد افسوس ایک پاکیزہ رشتے جسے ربِ کائنات نے پاکیزہ اور عظیم مقاصد کیلئے جاری کیا ، جو ہر دور میں پاکیزہ اور سادہ طریقے سے عمل میں آتا رہا ، آج خاندانوں اور نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زرِ طلبی کا کاروبار سمجھ لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جہیز کی حرص کیوں؟ مختصر لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ حریصانہ طبیعت حبِ دنیا کی پیداوار ہے اور دین سے دوری کا نتیجہ ہے، اس لئے کہ آدمی اپنی کوشش ومحنت سے جتنا مال چاہے کمائے مگر دوسرے کی مال کی طمع اور اسے اپنا مال بنانے کی حرص یقیناً مذموم ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تو جہیز کا سارا سامان جو بیوی شوہر کے گھر لائے تمام تر بیوی ہی کی ملکیت ہے۔ اس پر اگر زکوٰۃ فرض ہو تو اس کی ادائیگی بیوی ہی کی ذمہ داری ہے اور اس کا استعمال کوئی دوسرااگر کرنا چاہے تو بیوی کی رضامندی اور اجازت ہی پر منحصر ہے۔ لیکن اس کے برخلاف جن خاندانوں اور جوانوں میں یہ خیال فاسد جڑ پکڑ چکا ہے کہ دلہن کا سارا مال ہماری ملکیت ہے اور ہم اسے جیسے چاہے استعمال کریں ، ان لوگوں کی دین اور اس کے مسائل ومقاصد سے دوری بالکل عیاں ہے۔
احکام اسلام کے روسے نکاح کے بعد مہر ونان ونفقہ اور سکونت کے سارے مصارف شوہر پر عائد ہوتے ہیں، بیوی پر قطعاً یہ کوئی واجب یا فرض یا سنت نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال ودولت شوہر اور اس کے خاندان والوں کے حصہ میں لائے اور وہ بھی اپنے کمائی سے نہیں بلکہ اپنے ماں باپ اور خاندان واقارب کی محنت اور پسینے کی کمائی سے ۔ لڑکی کے خاندان پر بھی صرف یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ مناسب لڑکے سے اس کا عقد کریں ، یہ ان کی ذمہ داری ہر گز نہیں کہ اس لڑکے کو مال ودولت سے بھی سرفراز کریں یا اپنی لڑکی کو زیادہ سامان سے نوازیںبلکہ عقد نکاح تو وہ عمل ہے، جس کی وجہ سے لڑکی کے ذاتی مصارف کی بھی ذمہ داری شوہر پر منتقل ہوجاتی ہے، لیکن عجب حرص وہوس ہے کہ آج کا نوجوان اور اس کا خاندان نکاح کے ذریعے اپنی ضروریات اور مصارف کی ذمہ داری بھی لڑکی کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ جہیز کی کمی کے باعث جو خاندان اور نوجوان شاکی ہوتے ہیںاور اپنی بے جا توقعات پر پانی پھرتا دیکھ کر اس قدر غیظ وغضب میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ظلم وستم اور ننگی جارحیت پر اُتر آتے ہیں ، وہ یا تو دین وشریعت کے مزاج اور اصول وقوانین ہی سے نا بلد ہوتے ہیں یا جانتے ہوئے بھی احکام ربانی کی خلاف ورزی کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی دین وشریعت سے انحراف نمایا ںطور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ ایک رخ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہیز طلبی کی حریصانہ طبیعت اور نہ ملنے پر ظالمانہ جسارت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ لیکن ایک رخ اور ہے جس سے یہ معلوم ہوگا کہ زیادہ جہیز لینے دینے کا عمل کیوں پروان چڑھ رہا ہے ۔ ایک بڑا سبب یہ ہے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ اپنی دولت کی نمائش کی خاطر اتنا جہیز دے ڈالتے ہیں کہ متوسط طبقے کی ساری جائیداد کی مالیت لگائی جائے تو اس کے برابر نہ ہو۔ ان حضرات کا یہ عمل دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی فکر کرتے ہیں اور اسی کو عزت وعظمت خیال کرتے ہیں اور نہ دینے میں اپنی بے عزتی وحقارت محسوس کرتے ہیں۔ بظاہراگر کوئی شخص خوشحال نظر آتا ہو لیکن حقیقت میں وہ پریشان حال اور تنگ دست ہو، اوراتنا جہیز نہ دے سکے جو معاشرے میں اس کے برابر اور ہم پلہ شمار کئے جانے والوں نے دیا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جاتا ہے اور لڑکی ، داماد سے عدم محبت پر محمول کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں لڑکی کوبہت سی اذیتوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
ان حالات واسباب کا جائزہ لینے کے بعد ان کے ازالے اور علاج پر غور کریں تو درج ذیل صورتوں کے بغیر اس لعنت کا ازالہ اور ظالمانہ وجارحانہ واقعات کا انسداد ناممکن ہے۔ معاشرہ میں دینی اسلامی روح پیدا کی جائے ، اسلامی احکام کی اہمیت وعظمت دلوں میں اُتاری جائے، آخرت کا خوف پیدا کیا جائے، متاع دنیا کی حرص دور کی جائے، اس بات کو دل ودماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز وبہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوشحال بنائے اور آخرت بھی سنوارے، خالق حقیقی کی سزا سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو انسان کی حفاظت وبقا اور اس کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کیلئے وضع ہوا ہے۔ اس رشتے کے بعد دو خاندانوں میں قرابت ومحبت اور اتحاد یگانگت بھی برپا ہوتی ہے اور مرد ووزن پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتیں ہیں، لیکن مصارف واخراجات کی ساری ذمہ داری شریعت نے مرد کے سر رکھی ہے۔ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ مرد کی عزت اور وقار کا تقاضا یہی ہے کہ مرد خود اپنی کمائی ، اپنی محنت اور اپنی دولت پر بھروسہ کرے، بیوی یا اس کے ماں باپ اور اہل خاندان کی کمائی اور دولت پر حریصانہ نظر رکھنا گھٹیاطبیعت کی غماز ہے،جس سے ہر شریف اور باغیرت فرد اور خاندان کو دور ہونا چاہئے۔ عملی طور پر شادی بیاہ کے موقع پر خصوصاً دولت مندوں کو سمجھایا جائے کہ خدا نے آپ کو دولت دی ہے اور آپ اپنی بیٹی داماد کو جو چاہے دے سکتے ہیں، لیکن اس کا بھی خیال رکھیں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ غریب خاندانوں کی لڑکیاں اس رسم جہیز کی وجہ سے بیٹھی رہ جاتیں ہیں اور ان کا کوئی پرُسان حال نہیں ہوتا۔ آپ کو دینا ہی ہے تو بعد میں پوشیدہ طور پر دے لیں ،لیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کی نمائش تنگ دست لڑکیوں کی زندگی اجیرن نہ بنائیں اور نوجوانوں کو بتایا جائے کہ تم اگر اپنی محنت سے دولت کے مالک بن سکے تو یہ دولت تمہارے لئے راحت وعزت کا باعث ہوسکتی ہے، لیکن ظلم وستم کے طریقوں اور ناجائز راستوں کو اپناکر بھیک کی طرح جہیز مانگ کر مال واسباب جمع کرنا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں۔ تمہاری عظمت ووقار اسی میں ہے کہ تم کسی دکھی اور غریب و پریشان حال کیلئے باعزت زندگی کا سہارا بنو اور اسے اپنی زوجیت میں لاکر اس کا دُکھ درد ، رنج والم دور کرو،ورنہ یہ کہ وہ خود اپنے جہیز سے تمہاری محتاجی وغربت کا علاج کرے۔حاصل کلام یہ ہے کہ فکر ومزاج میں تبدیلی لائی جائے، تصورات وخیالات، معاملات وعادات کو اسلامی وایمانی رنگ میں ڈھالا جائے اور دولت مند طبقہ نادار وکمزور کے دکھ درد اس کے مصائب ومشکلات کا سچے دل سے احساس کرے، جب ہی جہیز میں افراط وغلو اور اس سے پیدا ہونے والے مفاسد کا سد باب ہوسکتاہے۔
رابطہ ۔6291697668