ڈاکٹرامتیازعبدالقادر
ویکیپیڈیاکے مطابق بیوروکریسی فرانسیسی نژاد لفظ ہے اور اس طنز آمیز لفظ کا اطلاق ایسی عاملہ یا انتظامیہ پر ہوتا ہے جس کا کام ضابطہ پرستی کے باعث طوالت آمیز ہو۔ اس اصطلاح کو اٹھارہویں صدی میں فرانس میں وضع کیا گیا ۔نپولین کے دور حکومت میں سرکاری محکموں کو ’’بیورو ‘‘کہا جاتا تھا اور سرکاری عہدے داروں کو بیوروکریٹ۔اس قسم کے نظام حکومت کے ناقدین کی رائے ہے کہ اس نظام سے کام میں طوالت، تنگ نظری اور عدم توجہ پیدا ہوتی ہے اور عوام سے رعونت برتی جاتی ہے۔اردو میں اسے نوکر شاہی بھی کہتے ہیں۔
چیف ویجیلنس کمشنر رہ چکے ہندوستان کے سینئر بیوروکریٹ این وٹھل نے ایک بار کہا تھا کہ بیوروکریٹس سیاستدانوں سے زیادہ کرپٹ ہوتے ہیں، استثنا(Exception)موجودہے، کیونکہ سیاستدانوں کو عوام ایک مقررہ وقت کے بعد ہٹا سکتے ہیں، لیکن بیوروکریٹس اپنی سروس کی پوری زندگی میں کرپشن کرتے رہتے ہیں۔این وٹھل کایہ بیان اُن کی زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہے جس کا انہوں نے اظہار کردیا، لیکن ہندکی آزادی کے 75سال بعد بھی آج عوام اتنے مجبور ہیں کہ وہ بیورکریسی کے کرپشن کا شکار ہونے اور قدم قدم پر اس کاتجربہ کرنے کے باوجود اس کی شکایت نہیں کرپاتے ہیں۔کوئی ایک آدھ معاملہ اُجاگر بھی ہوجاتا ہے تو بیوروکریٹس کی پوری برادری متحد ہوکر مزاحمت پراُترآتی ہے اوربدعنوان سیاست داں بھی ان کے ہم رکاب ہوجاتے ہیں۔ معاملہ سردخانہ کی نذر ہوجاتا ہے اور شکایت کرنے والے کوکبھی پس زنداں بھیج دیاجاتا ہے۔
’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘نے ایک واقعہ کی پردہ کُشائی کرتے ہوئے لکھاکہ ایک بیوروکریٹ جوکہ دہلی حکومت میں پرنسپل سکریٹری ہیں اور انہیں اپنے پالتو کتے کے ساتھ سیر کا چسکا ہے۔ یہ شام کے وقت سیر کو نکلتے ہیں اور مقامی تھیاگ راج اسٹیڈیم میں اپنے کُتّے کو ٹہلاتے ہیں، لیکن وہاں ایتھلیٹ کی ہونے والی کوچنگ کی وجہ سے ان کی سیر کا مزہ کرکرا ہورہا تھا ،اس لیے ایتھلیٹ کو وہاں سے باہر نکال دیا گیا تاکہ وہ بیورکریٹ اپنے کُتے کے ساتھ سیر کرسکیں۔ کھلاڑیوں اور کوچزکاکہنا ہے کہ انہیں شام 7 بجے ٹریننگ ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیوںکہ ان سب کے جانے کے بعد ایک آئی اے ایس افسر اپنے کُتے کے ساتھ سیر کیلئے وہاں آتا ہے۔تنازع اتنا بڑھا کہ وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو سامنے آنا پڑا اورا نہوں نے دہلی کے تمام اسٹیڈیم رات10بجے تک عوام کیلئے کھولے رکھے جانے کی ہدایت جاری کردی۔مشتے نمونہ ازخردارے کے مصداق یہ واقعہ خود کو ہندوستان ’’جنت نشان ‘‘کا مالک و مختار سمجھنے والی بیوروکریسی کی آمرانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔وزیراعظم ہند نریندرمودی بھی بیوروکریسی کے رویہ کے شاکی رہ چکے ہیں۔(اداریہ ؛روزنامہ راشٹریہ سھارا۔۲۷مئی ۲۰۲۲ء)
بیوروکریسی دراصل معیشت کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ ضابطوں کا ایک ایسا پیچیدہ اور شیطانی سلسلہ ،جس میں سرمایہ کار بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں سرمایہ کار کے لیے سہولیات ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ضابطوں کا ایک کوڑا ہے، جسے بیوروکریسی نے تھام رکھا ہے، جب اور جس کی چاہے کمر لال اور ہری کر دے۔کسی سرمایہ کار نے درمیانے درجے کا ایک یونٹ لگانا ہو تو درجنوں محکموں کے بیسیوں قوانین اس کی دہلیز پر دستک دینے آجاتے ہیں۔ افسر شاہی کے’’ داروغے‘‘ اس کے علاوہ ہیں۔ کسی کاروباری شخص سے پوچھئے کہ ریاست میں سرمایہ کاری کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟ سرفہرست بیوروکریسی ہی ہوگی۔
نوکرشاہی نے ایک ایسا پیچیدہ نظام وضع کر رکھا ہے کہ اس کی خوشنودی کے بغیر سرمایہ دار دو قدم نہیں چل سکتا۔ کسی کی فائل دبا لی، کسی کی غائب کر لی، کسی پر اعتراض لگا دیا، کہیں کوئی بے جاقانونی نکتہ نکال لیا،کسی کے لاکھوںہڑپ لئے ،کسی کاحق بعوضِ ’’رسیدِرشوت‘‘ دے دیا۔ یہ طبقہ سرمایہ کاری اور کاروبارکی معاونت نہیں کرتی، اسے منجمد کرتی ہے۔ ان حالات میں سرمایہ دار ،تاجرمعیشت پر توجہ دے یا صرف بیوروکریسی کی ’’معیشت‘‘ کا بوجھ اٹھائے؟
بیوروکریسی کی ساخت نو آبادیاتی اور اس کا مزاج ایسٹ انڈیا کمپنی والا ہے۔ اختیارات لامحدود، وسائل بے پناہ اور احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ احتساب کرے بھی کون؟طبقہ اشرافیہ اورنوکرشاہی کاآپس میںجسم وروح کاتعلق ہے۔ ایک دوسرے کے عیوب کے وہ’’ستّار‘‘ ہیں۔
بیوروکریسی کے لئے عوام رعایا اور سرمایہ دار ایک ’امکان‘ ہے۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح عوام سے دور اور مقامی معیشت سے لاتعلق ہے۔بس اس کی’’ اپنی معیشت‘‘ ٹھیک رہنی چاہیے اور مراعات کے چشمے کبھی خشک نہیں ہونے چاہیے۔کسی نے سرمایہ کاری کرنا ہے تو بیوروکریسی کی یہ رکاوٹیں اسے اپنے سرمائے کے زور پر عبور کرنی ہیں، فائلوں کو پہیہ خود لگانا ہے، بابو لوگ اس مشق میں معاون نہیں ہوں گے، ضابطوں کی رکاوٹ ڈال کر داد وصول کریں گے۔نو آبادیاتی بیوروکریسی کا ڈھانچہ فرسودہ ہے۔ نہ کوئی مہارت۔۔نہ افتاد طبع۔۔۔!
بیوروکریسی ہماری قومی معیشت کا وہ سوراخ ہے جو قومی خزانے کو بھرنے نہیں دیتا۔ ریاست کی سرکاری رہائش گاہیں، جہاں یہ چھوٹے اور بڑے بابو صاحبان قیام پذیر ہیں، اگر نجی شعبے کے حوالے کر دی جائیں تو اربوں روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔ انہیں صرف کرائے پر چڑھا دیا جائے توکروڑوں روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔بیوروکریسی کا یہ’’ مال غنیمت‘‘ ہماری معیشت کا’’ بلیک ہول‘‘ ہے،جس نے ریاست کوبیساکھیوںپرلاکھڑاکیا۔
[email protected]