نواز شریف کے بارے میں پاکستانی عدالت عالیہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ صادر کیا ہے اُسے بلاشبہہ تاریخی فیصلہ کہنا پڑے گا ۔اِس فیصلے کے مطابق نہ ہی وہ صادق رہے نہ امین! پاناما لیکس میں دنیا کے متفرقہ قارونوں میں نواز شریف کا نام بھی آیا۔ عصر جدید کے اِن قارونوں کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ دورِفرعون کا قارون بھی اپنے بے پناہ خزانوں سمیت اُن کے سامنے ہیچ نظر آئیں ! سرمایے کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے عصر حاضر کے اِن قارونوں نے آف شور کمپنیوں کا سہارا لیاجہاں نہ سرمایے کو ڈکلیر کرنے کی ضرورت پیش آئی نہ ہی اُس پہ ٹیکس ادا کرنے کی اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک کہ پاناما کاغذات لیک نہیں ہوئے۔نواز شریف کا نام بھی پاناما پیپرس میں آیا اور اپریل 2016ء سے آج تک پاکستان میں ایک ہنگامہ برپا ہے جس کا ایک اہم گام وہ فیصلہ ہے جو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے بارے میں سنایا جس میں وزارت عظمی کے منصب کیلئے اُنہیں نا اہل قرار دیا گیاچونکہ وہ نہ ہی صادق حساب میں آئے نہ ہی امین!یہ سمجھنا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اِس ہنگامے کا اختتام ہے غلط ہو گا چونکہ ابھی عدالتی کاروائی جاری و ساری ہے اور ابھی کئی گام آنے ہیں۔اِس عدالتی کاروائی کے دوررس امکانات ہو سکتے ہیںجس کی تجزیہ کاری اِس کالم کا ہدف ہے۔
نواز شریف کے بارے جو عدالتی فیصلہ آیا ہے اُس کے اثرات پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ بر صغیر میں سرحد کے آر پار اثرات نمایاں ہیں۔ بھارتی میڈیا نے اِس فیصلے کو پاکستان میں فوج کے بڑھتے ہوئے رول سے تعبیر دی ہے بہ معنی ایں کہ خط متارکہ کے آر پار پاکستانی حرکات میں شدت آنے کا امکان ہے اور اِسی کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کے اندر جنگجویانہ حرکات میں تیزی آنے کے امکاں کی بات بھی کی جا رہی ہے۔یہ سارے مفروضات اِس پہ منتج ہوتے ہیں کہ نواز شریف کی سولین ڈموکرٹیک سرکار پاکستانی فوج کی اِن حرکات پہ روک لگائے ہوئے تھے۔ اِن مفروضات کے صحت و سقم پہ تبصرے کے بغیر پوچھا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی سولین ڈیموکرٹیک سرکار کے ہوتے ہوئے کونسی سفارتی مہم جاری و ساری تھی جس پر اُن کے جانے سے روک لگنے کا امکان ہے ؟بر صغیر کا ہر ذی حس فرد ہند و پاک کے مابین ایک نہ ٹوٹنے والی سفارتی مہم کا خواہاں ہے اور کوئی بھی با شعور فرد جنگ و جدل کا حامی نہیں ہو سکتا اور یہ خواہش یہ تمنا کسی شخص سے وابستہ نہیں بھلے ہی وہ نواز شریف ہو یا نریندرا مودی بلکہ یہ ایک نظریاتی اصرار ہے ۔رہی یہ سوچ یہ طرز فکر کہ پاکستانی فوج سفارتی روابط کے برخلاف ہے تو اِس ضمن میں تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومت جب بھی آئی توسولین ادوار سے بیشتر سفارتی رابطے بر قرار رہے۔سندھ طاس معاہدہ صدر ایوب کے دور حکومت میں 19ستمبر 1960ء کو انجام پذیر پایا اور اِس معاہدے پہ اتار چڑھاؤ کے باوجود آج تک عمل در آمد ہوتا رہا ہے بلکہ اِسے ہند و پاک مے مابین سب سے پائیدار سمجھوتا مانا جا تا ہے جس پہ کئی جنگوں کے دوراں بھی عمل در آمد ہوتا رہا۔قارئین کو یاد ہو گا کہ صدر ایوب ایک فوجی حکمراں تھے۔ کشمیر کے بارے میں مشرف فارمولہ حل کی جانب سب سے موثر قدم مانا جاتا ہے۔جنرل مشرف بھی ایک فوجی حکمراں تھے۔بنابریں یہ مفروضہ کہ پاکستانی فوج سفارتی روابط کے مانع ہے تاریخی شواہد کی بنا پہ صیح نہیں۔
بھارتی تجزیہ نگاروں کے تجزیات میں نواز شیریف کی اقتدار سے بیدخلی کے بعد ڈپلومیسی کا بیک سٹیج پہ جانا اور پاکستانی فوج کے امکانی بڑھتے ہوئے اقدامات کے ساتھ ساتھ بھارت میں اُن 424 افراد کا نام بھی منظر عام پہ آ رہا ہے جن کا ذکر پانامہ لیکس میں آیا ہے۔بھارت کے اِن424قارونوں میں جہاں امیتاب بچن اور اُن کی بہو اشوریہ رائے بچن کا ذکر ہوا ہے وہی کئی نامی گرامی بزنس مین بھی اُن میں شامل ہیں۔بھارتی مطبوعات میں یہ پوچھا جا رہا ہے کہ جو تحقیقات اپریل2016ء میں شروع ہوئی وہ کہاں تک پہنچی ؟قارئین ذہن میں رکھیں کہ پاناما پیپرس کا انکشاف اپریل2016ء میں ہوا تھا۔انکشاف ہونے کے فوری بعدبھارت میں تحقیقات شروع ہوئی اور وزیر اعظم نریندرا مودی نے تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے احکامات بھی صادر کئے لیکن اُس کے بعد آج تک اِس معاملے میں شاید ہی کچھ سننے کو ملا ہو۔ پاکستان کی عدالت عالیہ میں نواز شریف کی نا اہلی کا حکم صادر ہو نے کے بعدبھارتی مطبوعات خاصکر الکٹرونیک میڈیا میں یہ الزامات سننے کو مل رہے ہیں کہ تحقیقات کی نیچی نہج کی وجہ بھارتی قارونوں کے حکمراں جماعت سے تعلقات ہیں۔در اصل بھارتی الکٹرونیک میڈیا کے سورما اور تجزیہ نگار بھارتی تحقیقات کی سست روی کو پاکستانی تحقیقی اداروں کی سبک روی سے تقابل نسبت دیتے وقت میزاں میں واضح فرق محسوس کرنے لگے ہیں ۔بھارت کسی بھی میدان میں پاکستان سے پیچھے رہے یہ الکٹرونیک میڈیا کے سورما ؤںاور تجزیہ نگاروں کے لئے ہضم کرنے کے قابل نہیں۔اُن کی نظروں میں بھارت کا بڑھا پن بہر حال قائم و دائم رہنا چاہیے لہذا امکاں یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں بھارتی قارونوں کے خلاف تحقیقات میں تیزی آئے گی جس سے امکاں ہے کہ کچھ بڑی مچھلیاں تحقیقاتی اور عدالتی جال میں پھنس سکتی ہیں؟
پاکستان میں نواز شریف کی نا اہلی کا حکم صادر ہونے کے بعدسیاسی اور قانونی حلقوں میں ایک لمبی بحث کا آغاز ہو گیا ہے چونکہ جہاں اِس سارے معاملے کا ایک سیاسی پہلو ہے وہی ایک قانونی پہلو بھی ہے اور دونوں کو لازم و ملزوم کہا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کی سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (نواز:ن)نے اپنا رہبر کھویا ہے جو پاکستان نیشنل اسمبلی میں قائد ایوان تھے اور اُسی مناسبت سے ملک کے وزیر اعظم لیکن نیشنل اسمبلی میں سب سے بڑی حزب ہونے کے ناطے ابھی سیاسی طاقت اِس حزب کے پاس ہی ہے ۔پچھلے ہفتے سنچروار کے روز پارٹی کی اعلی قیادت کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ پہلے اقتدار ایک عبوری وزیر اعظم کے پاس رہے گا جو کم و بیش 45دنوں تک وزیر اعظم رہیں گے اور اُس کے بعد نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف وزیر اعظم بنیں گے۔پارٹی کے اعلی کماں کے فیصلے کی توثیق پاکستان مسلم لیگ ( ن) کی پارلیمانی پارٹی نے کی اور ایسے میں شاہد خاقان عباسی عبوری وزیر اعظم مقرر ہوئے جو اطلاعات کے مطابق ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں ۔وزیر اعظم بننے کیلئے شہباز شریف کو پہلے فیڈرل قانون سازیہ کا ممبر بننا ہو گا۔کہا جاتا ہے کہ وہ نیشنل اسمبلی کی نشست (NA–120) سے انتخاب لڑیں گے ۔یہ نشست نواز شریف کی تھی اوراُن کے نا اہل قرار پانے سے یہ نشست خالی ہو چکی ہے۔شہباز شریف کے وزیر اعظم بنانے کا حدف سیاسی طاقت کو خاندانی وراثت بنانا ہے جو کہ بر صغیر کے آر پار کے ممالک کی ریت بن چکی ہے ۔شریف خاندان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جہاں نواز شریف اپنی دختر مریم نواز شریف کو صحنہ سیاست میں لانا چاہتے ہیں وہی شہباز شریف اپنے فرزند حمزہ شریف کو سامنے لائے ہیں۔ پاکستان کے کچھ تبصرہ نگار اِسے خاندان کے اندر رسہ کشی سے تعبیر دیتے ہیں البتہ فی الحال مریم نوا ز شریف قانونی شکنجے میں ہیں کیونکہ نواز شریف کے علاوہ اُن کے دونوں بیٹوں حسن و حسین،بیٹی مریم نواز ،داماد: سابقہ کیپٹن صفدر کے ضمن میں عدالت عالیہ نے نیشنل احتسابی بیورو میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ شاید شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شریف کو پاکستانی پنجاب کے وزیر اعلی کے طور پہ نامزد کیا جائے ۔ایسا تب ہونے کا امکاں ہے جب شہباز شریف فیڈرل کابینہ کے سر براہ کی حثیت سے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالیں گے۔
سیاسی طاقت کے ضمن میں نواز شریف کی بر طرفی کے باوجود ابھی تک ترپ بھی اُن کی سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی لگتی ہے اور چال بھی کیونکہ جہاں قومی اسمبلی میں اِس پارٹی کو اکثریت حاصل ہے وہی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی پراونشل اسمبلی میں بھی اِسی پارٹی کی اکثریت ہے اور یہ صورت حال سال آئیندہ 2018ء کے جون مہینے تک قائم رہنے کا امکاں ہے جب کہ نئے انتخابات ہونگے ۔ پاکستانی میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ جب تک نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے پہ قائم تھے تب تک یہ امکانات کہ عمران خان کی حزب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انتخابات جیت سکے ضعیف تھے لیکن نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے سے اُنکی سیاسی ساکھ پہ منٖفی اثرات پڑنے کا امکاں ہے اور عمران خان کے میدان مارنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں البتہ جہاں عمران خان کی تحریک انصاف سب سے بڑے صوبے پنجاب میں واضح اپوزیشن کی صورت میں اُبھری ہے اور خیبر پختونخواہ صوبے میں اِس پارٹی کی صوبائی حکومت بھی ہے وہی سندھ اور بلوچستان میں پارٹی کافی کمزور ہے ۔ سندھ کے شہری علاقوں پی جہاں قومی مہاجر موؤمنٹ حاوی ہے وہی سندھ کے دیہی علاقوں میں پاکستان پیوپلزپارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے۔پاکستان کی بٹی ہوئی اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے فعال نیک ہے البتہ نواز شریف کی بر طرفی کے بعد یہی پوزیشن قائم رہے گی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گاگر چہ کچھ تجزیہ نگار یہ بھی مانتے ہیں کہ نواز شریف مظلوم کا پارٹ کھیل کے لوگوں کا رحجان اپنی طرف پھیر سکتے ہیںاور ابھی سے مسلم لیگ (ن) نے یہ راگ الاپنا شروع کیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ ایک معمولی تکنیکی بنیاد پہ کیا گیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق وہ صدیق اِس جہت سے قرار نہیں پائے کہ اُنہوں نے پارلیمنٹ و عدالت کے سامنے صداقت ظاہر نہیں کی۔نواز شریف کے صادق نہ ہونے کی عدالتی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے جب 2013 ء میں قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑنے کیلئے جب اپنے کاغذات نامزدگی عوامی نمائیندگی ایکٹ 1976ء کے سیکشن 12 (2) (f)کے تحت دائر کئے تو تب اُنہوں نے دوبئی کی کمپنی Capital FZE میں اپنی ملازمت کا ذکر کاغذات میں نہیں کیااور ایسے میں اُنہوں نے حلفیہ بیاں میں ایک جھوٹی ڈکلریشن دے دی لہٰذا وہ عوامی نمائیندگی ایکٹ کے سیکشن 99(f)اور اسلامک ریپبلک آف پاکستان کے قانون اساسی 1973ء کے آرٹیکل 62(1)(f)کے تحت مجلس شورا(پارلیمنٹ) کی ممبرشپ کے نا اہل قرارپائے چناچہ اُنہیں بیدخل کیا گیا۔نواز شریف کی اِس دلیل کو کہ اُنہوں نے کمپنی کی ملازمت کے دوراں کوئی تنخواہ وصول نہیں کی عدالت نے نادیدہ لیا اور یہ ایک ایسی رقم قرار دیا جو وصول ہونی چاہیے تھی۔اِسی ملازمت کی بنا پہ نواز شریف کو امارات المتحدہ العربیہ کا اقامہ بھی حاصل ہو چکا تھا۔جہاں مسلم لیگ (ن) نے عدالتی حکم کی تعمیل کی جو بہر حال نا گزیر تھی وہی وہ اُسے قبول کرنے سے مسلسل منکر ہے اور اُسے ایک تکنیکی غلطی منوانے پہ تلی نظر آتی ہے۔
پاکستان میں جہاں اپوزیشن نواز شریف کے خلاف فیصلہ جانے سے خوش نظرآتی ہے وہی سیاسی حلقوں میں ایک خوف بھی طاری ہو گیا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ عدالتی فیصلے میں اسلامک ریپبلک آف پاکستان کے قانون اساسی 1973ء کے آرٹیکل62/63کے تحت جو صادق و امین ہونے کا معیار قائم کیا گیا ہے اُس پہ شاید ہی کوئی اتر آئے؟ابھی عدالت عالیہ نے پی ٹی آئی کے رہبراں عمران خان اور جہانگیر ترین کے مقدمات کے بارے میں بھی فیصلے صادر کرنے ہیں ۔اُن کے خلاف پٹیشن مسلم لیگ (ن)کے اراکین نے داخل کئے ہیں۔نواز شریف کی نااہلی و بیدخلی تا عمر ہے یا اُسے وقت معینہ تک محدود رکھا جائے گا اِس بارے میں چونکہ سپریم کورٹ نے کوئی واضح بات نہیں کہی ہے لہذا قانونی حلقوں میں یہ بات شد و مد سے موضوع بحث بنی ہے ۔جیسا بھی ہو اگلے کئی مہینوں تک پاکستان میں سیاسی بازارکے ساتھ ساتھ عدالتی میدان بھی گرم رہے گا۔یہ بے یقینی کی صورت حال جہاں ملک کے لئے تکلیف دہ ہو سکتی ہے وہی سیاسی کورپشن کو روکنے میں مدد گار بھی ثابت ہو سکتی ہے بشرطیکہ عدالتی رخ ہر سیاست داں کے صدیق و امین ہونے پہ جما رہے۔