محمد تحسین رضا نوری
اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں نماز جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا۔ نماز جہاں ہمیں روحانی عروج اور طمانیت قلب عطا کر کے برائیوں سے نکال کر پاکیزگی کے دائرے میں داخل کرتی ہے، وہیں جسمانی صحت و تندرستی کیلئے بھی ممد و معاون ہے۔ یہ اسلام کا خاصہ ہے کہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے سے انسان کو انگنت روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ جسمانی اور ذہنی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ دور جدید میں ماہرین طب اسلامی ارکان پر ریسرچ کر کے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عبادات کے روحانی اور جسمانی فوائد بتائے ہیں وہ یقینادرست ہیں، نماز کا ہر ہر رکن کسی نہ کسی طبی و نفسیاتی افادیت کا حامل ہے۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بار میرے پیٹ میں درد تھا، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا: کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے ؟ میں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) تو آپ نے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو، کیونکہ نماز میں شفا ہے، (ابن ماجہ، کتاب الطب)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں جسمانی امراض کیلئے بھی شفا ہے، بشرطیکہ اْسے پورے آداب کے ساتھ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا کیا جائے۔
ڈاکٹر محمد کمال الدین حسین ہمدانی لکھتے ہیں کہ ارکان نماز کو فرداً فرداً تشریحی روشنی میں دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ ہر رکن نماز کی ادائیگی میں مخصوص عضلات و مفاصل میں تحریک پیدا ہوتی ہے، اور مخصوص عضلات کی ورزش ہوتی ہے۔ علم تشریح (Physiology) کا یہ ایک کلیہ ہے کہ جب انسان کسی حرکت کا ارادہ کرتا ہے تو متعلقہ مراکز دماغ سے تحریک مخصوص اعصاب کے ذریعہ متعلقہ عضلات میں پہنچتی ہے اور عضلات حسب محل منقبض یا منبسط ہو کر افعال مطلوبہ انجام دیتے ہیں اور جب نمازوں کی ادائیگی کی صورت میں بار بار ارکان نماز کا اعادہ کیا جاتا ہے تو یہ صورت ایک ورزش بن جاتی ہے جس سے عضلات و مفاصل کی نشو و نما اور طاقت بہتر ہوتی ہے۔ نیز جملہ ارکان نماز کی ادائیگی کی صورت میں جملہ اعضاء انسانی کی ورزش بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ہو جاتی ہے جس سے جسم انسان کی تازگی اور طاقت بحال رہتی ہے اور جسمانی افعال طبی معیار پر جاری رہتے ہیں۔
نماز ایک بہترین اسلامی ورزش ہے جو انسان کو ہر دم تازہ دم رکھتی ہے۔ سستی اور اضمحلال کو جسم میں بڑھنے نہیں دیتی مگر دوسرے مذاہب میں کوئی ایسی جامع عبادت نہیں جس کی ادائیگی کی صورت میں جملہ اعضاء انسان کی تحریک و طاقت بڑھے۔یہ امتیاز نماز ہی کو حاصل ہے کہ یہ ایک نہایت جامع اسلامی ورزش بھی ہے جس کا اثر جملہ اعضاء انسانی پر مساوی ہوتا ہے اور جملہ اعضاء جسم میں تحریک و طاقت پیدا ہوتی ہے اور صحت و تندرستی رہتی ہے۔(اسلامی اصول صحت، صفحہ 36)
ماہرین طب اور سائنسدانوں نے نماز کے جملہ ارکان پر ریسرچ کرنے کے بعد کہا کہ اگر مسلمان پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرنے لگیں تو یقینا بہت سی مہلک بیماریوں سے محفوظ رہیں گے کیوں کہ دوران نماز انسان ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے، اْس کی وضع بدلتی رہتی ہے اْس کے اکثر جوڑ جنبش کرتے رہتے ہیں، اور اس کے ساتھ اکثر باطنی اعضاء معدہ، آنتیں، آلات تنفس اور قناۃغذا اِن سب کی وضع حرکات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر ایسی صورت میں کون سا ایسا مانع ہے جس کی وجہ سے جسم کے اجزاء توانا اور بعض مواد تحلیل نہ ہو جائیں۔
ارکان صلوٰۃ اور طبی فوائد (تکبیر تحریمہ):۔
جب ہم ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے ہیں تو بازؤں، گردن کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے، دل کے مریض کیلئے ایسی ورزش بہت مفید ہے جو کہ نماز پڑھتے ہوئے خود بخود ہو جاتی ہے اور یہ ورزش فالج کے خطرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس، صفحہ 50)
خواجہ شمس الدین عظیمی جو روحانیت اور پیراسائیکالوجی کے ماہر ہیں۔ اْنہوںنے نیت باندھنے کی سائنسی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ: دماغ میں کھربوں خلیے کام کرتے ہیں، اور خلیوں میں برقی رو دوڑتی رہتی ہے، اْس برقی رو کے ذریعہ خیالات شعور اور تحت شعور سے گزرتے رہتے ہیں، دماغ میں کھربوں خلیوں کی طرح خانے بھی ہوتے ہیں، دماغ کا ایک خانہ وہ ہے جس میں برقی رو فوٹو لیتی رہتی ہے اور تقسیم کرتی رہتی ہے، یہ فوٹو بہت ہی زیادہ تاریک ہوتا ہے یا بہت ہی زیادہ چمکدار۔ ایک خانہ ہے جس میں بہت ہی اہم باتیں ہوتی ہے اْن اہم باتوں میں وہ باتیں بھی ہوتی ہیں جن کو شعور نے نظر انداز کر دیا ہوتا ہے جن کو ہم روحانی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں، نمازی جب ہاتھ اٹھا کر دونوں کانوں کی لو کے قریب لے جاتا ہے، تو ایک مخصوص برقی رو نہایت باریک اگ اپنا کنڈنسٹر (Condensor) بنا کر دماغ میں جاتی ہے اور دماغ کے اندر اْن خالی خلیوں (cells) کو چارج کر دیتی ہے جن کو شعور نے نظر انداز کر دیا تھا۔ یہ خلیے چارج ہوتے ہیں تو دماغ میں ایک روشنی کا جھماکا ہوتا ہے۔ اْس جھماکے سے تمام اعصاب متاثر ہو کر اْس خانہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں جس میں روحانی صلاحیتیں مخفی ہیں ساتھ ہی ساتھ ہاتھ کے اندر ایک تیز رو دماغ میں سے منتقل ہو جاتی ہے (روحانی نماز، صفحہ ۴۵، ۵۵، بحوالہ: سیرت مصطفی اور عصری سائنسی تحقیق)
قیام:۔ قیام کرنے میں بے شمار روحانی اور طبی فوائد پوشیدہ ہیں۔ جب نمازی قیام کرتا ہے تو جسم کو سکون کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔نمازی چونکہ قیام کے دوران قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے تو اس کا جسم نور کی شعاؤں میں لپٹا رہتا ہے۔جب تک وہ قرات کرتا ہے یہ نور مسلسل اْسے گھیرے رہتا ہے۔ماہرین نے بیان کیا ہے کہ قیام میں نمازی جس حالت میں کھڑا ہوتا ہے اگر کوئی شخص روزانہ 45 منٹ اسی حالت میں کھڑا رہے تو دماغ اور اعصاب میں زبردست قوت اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔ قیام سے موخر دماغ جس کا کام چال ڈھال اور جسم انسانی کی رفتار کو کنٹرول کرنا رہتا ہے، قوی ہو جاتا ہے، اور ایک ایسے خطرناک مرض سے بچا رہتا ہے جس سے آدمی اپنا توازن درست نہیں رکھ سکتا۔مزید قیام کے بے شمار فوائد ہیں، جیسے ہاتھ باندھنے، آدمی کا ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اور عورت کا سینہ پر ہاتھ باندھنا، سب کے الگ الگ بے شمار فوائد ہیں۔تفصیل کیلئے سائنسی کتب کا مطالعہ کریں۔
رکوع:۔حالت رکوع میں جسم کے تمام پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے۔ اس میں کولہے کے جوڑ جھکاؤ میں ہوتے ہیں، کہنیاں اور کلائی سیدھی کھنچی ہوئی ہوتی ہیں، ان تمام کے پٹھے چست حالت میں رہتے ہیں، جب کہ پیٹ اور کمر کے پٹھے، جھکتے اور سیدھے ہوتے وقت کام کرتے ہیں ۔اس طرح جسم کے متعدد اعضاء کی ورزش ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد نواز صاحب (پرنسپل راولپنڈی میڈکل کالج) رکوع اور سجدہ کو گھٹنوں اور کمر درد کے مریضوں کا علاج قرار دیتے ہیں، وہ مریض جن میں اعضاء سن ہو جاتے ہیں وہ بذریعہ رکوع اور سجود اس مرض سے بہت جلد چھٹکارہ پاتے ہیںاور رکوع سے کمر درد کے مریض جن کے حرام مغز میں ورم ہو گیا ہو بہت جلد صحت یاب ہوتے ہیں۔رکوع سے گردوں میں پتھری بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے۔اس سے ٹانگوں کے فالج شدہ مریض چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
سجدہ:۔دماغ کو خون کو اشد ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ دماغ رئیس الاعضاء ہے لیکن اس کا محل وقوع ایسا ہے کہ اس تک خون پہنچنا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے سجدہ دماغ کو خون کی فراہمی کیلئے نہایت موزوں عمل ہے۔ دماغ عام حالت میں دل کے پمپ سے اونچا رہتا ہے۔ اس لئے دماغ تک خون کا پہنچانا تھوڑا مشکل رہتا ہے لیکن سجدے میں دماغ دل سے نیچے رہتا ہے تو اس لیے دماغ کو خون باآسانی اور باافراط پہنچتا ہے، جتنا زیادہ لمبا سجدہ ہوگا اتنا ہی زیادہ خون دماغ کو پہنچے گا۔ اسی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے لمبا سجدہ کرنے کا حکم دیا۔حکماء اور طبیبوں کی رائے کے مطابق قوت حافظہ کی مضبوطی کیلئے لمبا سجدہ بہت مفید ہے۔
قعدہ:۔ التحیات پڑھتے وقت جسم کو نہایت سکون ملتا ہے۔ بیٹھنے کی حالت میں گھٹنے اور کولہے پر جھکاؤ ہوتا ہے۔ٹخنے اور پاؤں کے عضلات پیچھے کی جانب کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔اس سے اْن کی ہلکی پھلکی ورزش ہوتی ہے۔ ورزش کا یہ اصول ہے کہ سخت ورزش کے بعد قدرے توقف کیا جاتا ہے اور لمبی لمبی سانس لی جاتی ہے۔ بایں نسبت ہلکی ہلکی ورزش کی جاتی ہے۔ رکوع اور سجود کے بعد قعدہ میں بیٹھنا اسی اصول کا بہترین مظہر ہے۔
سلام:۔نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ڈاکٹر قاضی عبد الواحد کی تحقیق کے مطابق نمازی کو سلام پھیرنے کے لئے سر دائیں اور بائیں جانب کرنا پڑتا ہے، اور ایک نماز میں ایسا کئی مرتبہ کرنا پڑتا ہے۔ایسا کرنے والا امراض قلب اور اس کی اندرونی پیچیدگیوں سے ہمیشہ بچا رہتا ہے، اور بہت کم ان امراض میں مبتلا ہوتا ہے۔ (ماخوذ: سیرت مصطفی ؐ اور عصری سائنسی تحقیق)
ہمارے حالات:۔آج ہماری قوم نماز جیسی عظیم نعمت سے بہت دور ہے اور بہت سے لوگ نماز ادا کرتے بھی ہیں۔ پھر بھی روحانی، جسمانی اور نفسیاتی فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ ہم حضورؐکی سنت کے مطابق نماز ادا نہیں کرتے۔ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اور نماز گناہوں کیلئے ڈھال بھی ہے جیسا کہ ربِّ کریم نے ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے منع کرتی (روکتی) ہے۔ نماز سے گناہ معاف ہوتے ہیں، اور ایک مومن کو احساس گناہ سے رہائی ملتی ہے،
نماز میں ایک طرف لاتعداد طبی فوائد ہیں تو دوسری طرف ترک نماز سے دردناک عذاب بھی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
رابطہ۔شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)