جموں و کشمیر میں 23اور 24اکتوبر کو ہوئی بھاری بارش اور برف باری کو قدرتی آفت قرار دئے جانے کے بعد متاثرہ کسانوں اور باغ مالکان کیلئے معاوضہ کی منظوری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے تحت گزشتہ روز شوپیاں میں برف باری سے متاثرہ باغ مالکان کیلئے 4.96کروڑمعائوضہ کو منظوری دی گئی ۔قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے وادی میں 23 اور 24 اکتوبر کے درمیان ہوئی برفباری اور بارش کو قدرتی آفت قرار دیاتھا اور قدرتی آفت کے متاثرین کو اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فنڈ کے تحت معاوضہ دینے کا فیصلہ کیاگیاتھا۔ یہ اعلان سٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ (SDRF) کے رہنما خطوط کے تحت کیا گیاتھا جو 2015 میں وزارت داخلہ نے قدرتی آفت کے متاثرہ خاندانوں کو امداد فراہم کرنے کے مقصد سے جاری کیا تھا۔حکم نامہ کے مطابق کشمیر ڈویژن کے ضلع اننت ناگ، کولگام، شوپیان اور صوبہ جموں کے جموں، ادھمپور، کشتواڑ، ریاسی، سانہ اور کھٹوعہ اضلاع کے متاثرہ کسانوں کو معائوضہ دینے کا فیصلہ لیاگیاتھا۔اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ 23اور24اکتوبر کو ہوئی قبل از وقت برف باری کی وجہ سے جنوبی کشمیر میں میوہ باغات کو بے پناہ نقصان پہنچاتھا جبکہ اسی دوران جموں کے چناب خطہ میں برف باری اور میدانی جموں میں شدید ترین ژالہ باری کی وجہ سے میوہ باغات کے علاوہ دھان کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں تھیں۔چونکہ جموںوکشمیر انتظامیہ نے خود متعلقہ محکموں کے ذریعے نقصانات کا تخمینہ لگایا اور اسی وجہ سے یوٹی انتظامیہ نے اس برف باری اور ژالہ باری کو ریاست المرکوز قدرتی آفت قرار دینے میں تاخیر نہیں کی اور اب ایس ڈی آر ایف رہنما خطوط کے تحت متاثرین کو معائوضہ فراہم کیاجائے گا۔حکومت کی اس بر وقت پہل کا خیر مقدم کیاجانا چایئے کیونکہ وقت ضائع کئے بغیر جس طرح پہلے اس کو آفت قرار دیاگیا اور اس کے بعد معائوضہ بھی منظور کیاگیا ،وہ مثالی تھی کیونکہ اس طرح کے فوری ردعمل کی مثالیں شاذ ونادر ہی یہاں ملتی ہیں تاہم موجودہ لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ یہ عوامی مسائل سے قطعی لاتعلق نہیں ہے اور انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ بلاتاخیر عوامی مسائل کا ازالہ ہو۔متاثرہ کسانوں اور باغبانوں کو معائوضہ کی فراہمی کا فیصلہ اسی تناظر میں لیاجاناچاہئے تاہم یہاں یہ کہنا بھی حق بجانب ہی ہوگا کہ متاثرین کو اُس قدر معائوضہ نہیں ملے گا جس قدر معائوضہ انہیں اس آفت کو قومی آفت قرار دینے سے مل سکتا تھا ۔بلا شبہ ایس ڈی آر ایف کے تحت متاثرین کی دلجوئی ہوسکتی ہے تاہم اس کے تحت اتنا قلیل معائوضہ ملتا ہے کہ نقصانات کی مکمل بھرپائی ممکن نہیں ہے ۔ایسے میں کسانوں کو چاہئے کہ وہ اس معائوضہ کو قبول کرتے ہوئے اگلے سال کی تیاریوں میں لگ جائیں ۔حکومتی مشینری کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ فوری طور سروے کا عمل مکمل کریں اور متاثرین کی فہرستیں بنانے میں تاخیر نہ کی جائے اور اس عمل کے دوران اُن سبھی متاثرین کو شامل کیاجائے گا جو اب تک کسی وجہ سے ان فہرستوں میں شامل نہیں ہوسکے ہیں۔اس کے نتیجہ میں صد فیصد متاثرین کی دلجوئی یقینی بنائی جاسکتی ہے ۔علاوہ ازیں سرکار کیلئے یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ معائوضہ کی فراہمی کے اس عمل کو صاف و شفاف رکھا جائے اور ماضی میں اس طرح کے عمل میں شدید ترین رشوت ستانی کی شکایات سے بچاجائے کیونکہ اس کے نتیجہ میں نہ صرف پھر اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے بلکہ سرکارکے تئیں عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہوجاتا ہے ۔جتنا معائوضہ کی فراہمی شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں عمل میں لائی جائے گی ،اُتنا ہی عوام اور سرکار کے درمیان رشتے مستحکم ہوسکتے ہیں اور سرکار اور عوام کا تعلق مزید پختہ ہوسکتا اور جتنا اس عمل میں بے ضابطگیاں شامل ہونگیں ،اُتنا ہی اُس کے منفی اثرات مرتب ہونا طے ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر سے لیکر نچلی سطح تک سرکاری مشینری سے وابستہ سبھی افراد اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں پس و پیش سے کام نہ لیتے ہوئے حقداروں تک اُن کا حق پہنچانے کا عمل یقینی بنائیں گے۔اس کے علاوہ ہمارے کسان بھائیوں اور باغ مالکان کو بھی چاہئے کہ وہ وزیراعظم فصل بیمہ یوجنا سے فائدہ اٹھائیں کیونکہ اگر ہمارے کسان اور کاشتکار اپنی فصلوں کا وقت پر بیمہ کراتے ہیںتو انہیں نقصانات کے حوالے سے پریشان نہیں ہونا پڑے گا تاہم یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جموںصوبہ میں ہمارے ساٹھ لاکھ کسان رجسٹر ہیں اور فصل بیمہ یوجنا کا فائد ہ صرف50ہزار کسانوں نے ہی اٹھایا تھا اور جب حالیہ آفت آئی تو سبھی کسان حیران وپریشان تھے کہ اب کیا کیاجائے ۔فصلوں کا بیمہ وقت کی ضرورت ہے اور اس کے نتیجہ میں ایسی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیاجاسکتا ہے ۔اب چونکہ حکومتی سرپرستی میں یہ بیمہ پالیسی چل رہی ہے اور خود وزیراعظم دفتر سے اس بیمہ پالیسی کی مالی معائونت فراہم کی جارہی ہے تو ہمارے کسان اور کاشتکار بھائیوں کو چاہئے کہ وہ بلاتاخیر اپنی فصلوں کو بیمہ پالیسی کے دائرے میں لائیں تاکہ نقصان ہونے کی صورت میں ان کا حکومت پر بھرپائی کیلئے کم سے کم انحصار رہیں اور بیمہ کمپنیاں از خود ان کے نقصانات کی بھرپائی کریں۔