مولانامحمد عبدالحفیظ
ہمارے ملک ہندوستان میں آج صاف طور پر یہ نظر آرہا ہے کہ نفرتوں کی آگ چاروں طرف پھیل چکی، مہرو وفا کا درس بھلا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں صالح تبدیلی کی امید اگرکسی سے کی جاسکتی ہے تو وہ علماء کرام ہی ہیں کیونکہ ان کے پاس جو علم ودانش کا خزانہ ہوتا ہے، وہ عام انسان کے پاس نہیں ہوتا، یہ انبیاء کے وراث اسی لئے تو قرار پائے ہیں کہ ان کی پاس جو دولت انبیاء علیہ السلام سے منتقل ہوتے ہوئے پہنچی ہے ، اوروہ جس معاشرے میں رہتے بستے ہیں ،دین کے علمبرار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ معلم و مربی کی حیثیت سے ان کی کشش معاشرے میں اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو الٰہی و نبوی تعلیمات سے ہمیشہ وابستہ رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو انبیاء کے ورثہ کی قدر نہیںکرتے، مگر آج بھی ایک بڑی تعداد، ان خدا ترس علماء کرام کی جی جان سے محبت و قدر کرنے والی موجود ہے۔ملک کے موجودہ نفرت سے بھرے ماحول میں جبکہ ہر طرف فرقہ پرستی، مذہبی منافرت کی فضاء پائی جارہی ہے، اولاد آدم کی ایک بڑی تعداد کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے۔ ان حالات میں خیر امت کے ایک خاص طبقہ (علماء کرام) کی اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کے عطا کردہ علم کے ذریعہ اولا دِآدم کے درمیان پنپنے والی عداوتوں کو ختم کرنے میں اپنا رول ادا کریں۔
پیش آمدہ حالات کی جو کیفیت اب عام طور پر محسوس کی جارہی ہے، یہ ہماری کمی اور غفلت کا ایک نتیجہ ہے، جو ہم خیرامت کی ذمہ داریوں کو پوراکرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے۔ یہاںپر اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ہمارے اکابر نے اس ملک کے لئے عظیم و بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں اور اسے انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے کیلئے تن من دھن سب کچھ اس کام میں لگادیا، اور یہ ہمارے علماء ہی تھے جو وقت کی سپر پاور طاقت برطانیہ سے اپنا لوہا منوالیا۔
آج جو حالات ہمارے سامنے آرہے ہیں یہ اچانک رونما نہیں ہوئے بلکہ آزادی کی جب جنگ چل رہی تھی ،اسی زمانے میں اس کے علامات ظاہر ہونے شروع ہوچکے تھے، ہمیں اس بات کا اقرار کرنا ہی پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو برطانوی سامراج سے نجات دی تو ہم اللہ کا شکر ادا کرنا بھول گئے،اور ملت کوخدائے واحد کی بندگی کی طرف بلانے میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہوگئے۔خیر اب بھی ہم اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اس ملک کو نفرتی فضاء سے نکالنے کی جدوجہد شروع کرسکتے ہیں اور یہ کام ہمارے علماء ہی سے ممکن ہے، اگر پہل کرتے ہوئے سارے مسلمانوں کو یہ متحد کردیتے ہوں تو ملک کو پیارو محبت کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔جس کے لئے امت کو ایک لڑی میں پرونے کیلئے ہمارے علماء کرام ،مفتیان عظام، دینی ادارے وتعلیمی مراکز، قوم کی رہبری کرنے والی جماعتیں وجمعیتیں آپسی رنجشیں دور کرتے ہوئے اللہ کے رضا وخوشنودی کیلئے دین کی اساس پر ایک جگہ جمع ہونا بے حد ضروری ہے۔اتحاد امت کیلئے اب کوئی نیا فارمولا لانے کی چند اں ضرورت نہیں ہے، اللہ تبارک تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر ڈیڑھ ہزار سال قبل ایک ایسا نسخہ اکسیر اُتارا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے اہل ایمان جو اپنے عقیدہ کی بناء ایک امت ہیں، انہیں ہمیشہ متحد رکھنے کیلئے دو بنیادی چیزوں کی طرف رہنمائی فرما دی گئی ہے، وہ یہ کہ اعتصام بحبل اللہ اور افتراق سے مجتنب رہنا۔
آج ہم بخوبی دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان ہر طریقہ سے افتراق بازیاں جاری ہیں، گروہ بندیاں بام عروج پر ہے، اختلافات کا بازار گرم ہے، ان کی آپسی مسلکی نفرت نے انہیں اپنی اپنی مسجد اپنے اپنے فرقہ کے نام سے بنانے پر آمادہ کردیا۔ حد تو یہ ہوچکی کہ ایک فرقہ کا آدمی کسی دوسرے فرقہ کی بنائی گئی مسجد میں اللہ کی عبادت کیلئے داخل ہوجائے تو اسے ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔یہ منحوس عادت ورواج ہمارے درمیان میں وجود میںآیا ہے، اس کی معقول وجہ بھی یہی ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اوراس کی تعلیمات سے غفلت برت رہے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو بھول گئے۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کتاب اللہ کی وہ رسی (شریعت) ہے ،جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اور جس نے اس کو ترک کیا وہ غلط راہ پر پڑگیا(مسلم) اللہ کی رسی کی تشریح فرماتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ یوں تحریر کرتے ہیں:’’اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے، اور اس کو رسی سے اس لئے تعبیر کیاگیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوںکو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسی کو ’’مضبوط پکڑنے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت ’’دین‘‘ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کیلئے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔
جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہوجائے گا جو اس سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی اُمتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کرکے دنیا اورآخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کرچکا ہے۔
(رابطہ۔:9849099228)
[email protected]
نفرت کو الفت میں بدلنا علما کی ذمہ داری