حال ہی میںپٹنہ بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر للو پرساد یادو کے فرزند اور سیاسی جانشین تیجسوی یادو نے واشگاف الفاظ میں کہا: ’’بی جے پی روز گار ، بنیادی دوسرے مسائل اور اپنے ناکام منصوبوں پر پردے ڈالنے کے لئے تشدد بھڑکاتی ہے جس کی وجہ سے اصل مسائل کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹ جاتی ہے ‘‘تیجسوی یادو نے اپنے کئی ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’ہم نوجوانوں کے لئے روز گار اور دوسرے مسائل کی بات کرتے ہیں توبی جے پی تشدد آمیز ہنگامے کرواکر خون ریزیوں کو جنم دیتی ہے ‘‘ اگر یہ بیان تیجسوی نہ بھی دیتے تب بھی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مسلم اقلیت کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ ہاں اگر کوئی مسلمان یہی باتیں کرے تو وہ آناًفاناً ’’دیش دروہی اور غدار‘‘ قرار پاتا۔ بایں ہمہ تیجسوی کی حق نوائی کا وزن بڑھ جاتا ہے اور اگراُن پر ’’دیش دروہ ‘‘کا الزام لگابھی دیا جائے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ بی جے پی نے اپنے چار برس کے دوران ملک کو کچھ اور نہ دیا لیکن پارٹی ڈھیروں ساری نفرتیں،انتقام گیریاں ، اشتعال انگیزیاں اور تعصبات کا پکاپکایا لاوا ضرور دے گئی۔ اس لئے یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس پارٹی نے اقتدار ہی اس لئے حاصل کیا ہے کہ بھا رت کی ہزاروں برس پر محیط گنگا جمنی اور رواداری پر مبنی جاندار تہذیب کو ہندتوا کے نام پرفنا کے گھاٹ اُتار اجائے اور اس کی جگہ ایک ایسی آدم خور نئی تہذیب کو غالب کردیاجائے جس میں یک رنگی زعفرانی تسلط کے بجزاور کوئی رنگ کہیں نظر نہ آئے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی جے پی نے اپنے اس ایجنڈے کو نہ تو خوبصور ت مگر ذومعنین لفظوں میں چھپائے رکھا اور نہ کانگریس کی طرح بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مصداق عمل کیا ، بلکہ بھاجپا کا روی اس معاملے میںہمیشہ دو ٹوک رہا ہے کہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنے فرقہ پرستانہ موقف کا اعلان بھی کرو،اس پر عمل درآمد بھی کرو ، اس کا ہر محاذ پر دفاع بھی کرو۔ یہ اسی بیمار ذہن واضح پالیسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ چار برس کے دوران سارے بھارت ورش میں مسلم اقلیت کے لئے بُرے دن آگئے ،ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ،انہیں سیاسی طور بے دست وپا کر کے رکھ دیا گیا،انہیں معاشی اور سماجی طور الگ تھلگ کیا گیا ، ان کے ساتھ خصومت کا بدترین مظاہرہ قدم قدم پرکرکے لاتعداد مسائل کے ساتھ ساتھ عذاب وعتاب کا ہدف بھی بنایا گیا۔ اگرچہ مسلم کش فسادات کی شرح کانگریس میں بھی کچھ کم نہ رہی ہے اور بڑے بڑے مسلم کش کانڈ کانگریس ہی کی نام نہاد جمہورت کے مرہونِ منت ہیںلیکن اب کوئی ایسا دن بلکہ رات بھی خالی نہیں رہتی جب کہیں نہ کہیں مسلم دشمنی میں کوئی نہ کوئی دلدوز گٹھنا نہ گھٹتی ہو ۔ ان قاتلانہ واقعات کے پس پردہ واضح طور یہی مقاصد کارفر ما رہیں کہ مسلم اقلیت میں بے انتہا خوف و دہشت پیدا کردیا جائے تاکہ ہر مسلم بچہ ،بزرگ ،نوجوان اور دوشیزہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مر جائے ، بار بار اپنے عزیزوں کی بے گور وکفن لاشیں اور اپنے سوختہ گھروں، دوکانوں اور بازاروں کو دیکھ کر ان میں ایسی ہیبت بیٹھ جائے کہ وہ بے موت مر جائیں ۔
یہ ایک عمومی مشاہدے کی بات ہے کہ مودی سرکار کے سائے میں مقتول اخلاق احمد سے لے کر جے این یو کے جنید کے پُراسرار طور غائب ہوجانے تک کی الم ناک داستان اسی ایک تلخ حقیقت کا خلاصہ کر تی ہے۔ واقعی مسلم اقلیت ملک میں ہر جگہ ہراسان وپریشان ہے ، یہ اپنے لخت جگروں کی لاشوں کو کندھادے کر صرف صبر وتحمل کی تاکیدیں سننے کے سوا کچھ اور سوچنے یا کر نے کی حالت میں نہیں ہے ۔ چاہیے یہ بڑے گوشت کے بے بنیاد شک میں اخلاق کا قتل ِعمد ہو ، ریل کے ڈبے میں ایک معصوم مسلم نوجوانوں کا بہیمانہ قتل ہو ، گاؤ رکشا کے نام سے پہلو خان کا وحشیانہ اور جان لیوا حملہ ہو ، دنگے فساد بھڑکا کرکاس گنج ، بہار ، بنگال ، سورت، راجستھان میں ہندتوا بلوائیوں کے ہاتھوں تباہیاں ہوں ، پولیس کی طرف سے مسلم اقلیت کے خلاف جبر وزیادتیاں اور گرفتاریاںہوں وغیرہ و غیرہ ،ان سب ناقابل معافی جرائم میں عیاں طور سنگھ پریوار بطور پارٹی اور بطور نظریہ ملوث ہے ۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ساری سیاہ کاریاں کہیںدن کی روشنی میں اور کہیں رات کے اندھیرے میں انجام دی جارہی ہے ۔ حد یہ کہ ان سیاہ کارناموں کو انجام دینے کے بعد زعفرانی یرقان زدہ چنلیں اپنے ٹاک شوز میں دھڑلے سے ان کی پذیرائی کر تی ہیں اور بڑے بڑے لیڈر اور منسٹر بغیر کسی شرمندگی یا ندامت کے قاتلوں اور بلوائیوں کو دیش بھکت کہہ کر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں جب کہ مقتولین اور مظلومین کو دیش کے باغی اور نہ جانے کیا کیا گا لیاں دیتے ہیں ۔ اس سارے خونین ڈرامے کے بیچ پولیس کا رویہ کچھ ایسا دِ کھتا ہے جیسے اِسے امن وقانون کی پوزیشن سنبھالنے کے بجائے سیاسی وحکومتی سرپرستی کے حامل فسادیوں کے اشاروں پر یرغمال بننے کا وہی رول دیا گیا جو انتظامی مشنری اور سیاسی نظام کے لئے پریوار نے اسکرپٹ میں لکھ رکھاہے ۔بنابریں مسلمان اور کسی حدتک دلت بھی غنڈوں موالیوںاور لٹیروں کو کھلی فضا میں دندناتے دیکھ کر سانس لینے سے بھی ڈرتے ہیں اور یہ اتنے خوف زدہ ہیں کہ دل کی بات زبان پر لانے سے کتراتے ہیں ۔ اگر حکومت ان غنڈوں لفنگوں کی پیچھے کھڑی نہیں تو یہ کس چھو منتر کا چمتکارہے کہ پولیس ان پر ہاتھ ڈالنے سے معذور نظر آتی ہے اور انہی کی مرضی ومنشاء کو مقدم سمجھ کر اپنی خیرو عافیت کی چوکسی کر تی ہے ؟ کیایہ راج تاج کے مالک خون تشنہ بلوائیوں کے باسز کا کرشمہ نہیں کہ پولیس مسلم اقلیت کے خلاف کسی بھی غیرقانونی حرکت کر نے والے کے خلا ف ایکشن لینا تو دور ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی اور اگر بالفرض کسی سیاسی مصلحت سے ایف آئی کاا ندراج آر ناگزیر بھی ہوتو ہوتایہ ہے کہ پھر اقلیتی افراد کی شامت آجاتی ہے ا ورا نہیںہول سیل میں کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے جب کہ ظالموں کو کلین چٹ دے کر عدل وانصاف کا سرراہ مذاق اُڑایاجاتاہے ۔ گزشتہ چار سال سے بھارت ورش کے حقیقی بہی خواہ یہ انوکھا تماشہ بڑی حیرانگی اور دُکھ بھرے دل کے ساتھ دیکھتے جار ہے ہیں مگر زر خرید میڈیا ہے کہ آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھے اپنے پیشے کے تقدس کو مفاداتی گٹر کی نذر کرتاجارہاہے ۔ حقائق کی اَن دیکھی کر نا ا ور پوری دھٹائی کے ساتھ مسلم اقلیت کے خلاف جھوٹ ، فریب اور نفرت کی نئی نئی اختراعات کرنا اس کا اوڑھنا بچھونا بن چکاہے ۔ یہ یرقانی میڈیا ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہر عیب، ہر برائی ، ہر بدی ، ہر نقص، ہر کمزوری اور ہر بے وفائی منسوب کرکے انہیں گھر کا رکھتا ہے نہ گھاٹ کا، کیونکہ یہ اس کا ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کے عقائد ، لبا س، ثقافت ، عبادت ، عائلی قوانین ، خور دونوش اور پسند وناپسند میں کیڑے نکالو ، ان کی تاریخ کو مسخ کردو، ماضی ٔ قریب وبعید کے اوراقِ زریں سے انہیں کھرچ دو ، ان کے لئے گنگا جمنی تہذیب کے دھارے سے جڑے رہنا محال بنا دو، انہیں مشکوک ا لحال اور قابل نفرین بناکے پیش کردو اور ہندتوا ووٹ بنک کی برقرار ی کے لئے ان کے ہر سچ کو جھوٹ کے شمشان گھاٹ میں آگ کے سپر د کردو۔ بہر حال اس سارے منافرت آمیز سیاسی کھیل میں اگر چہ اروندھتی رائے سے لے کر دیگر اہل دانش وبینش تک پریواری ذہنیت کوآئیڈیا آف انڈیاکے لئے، جمہوریت کے لئے، آئین کے اساسی اصولوں کے لئے ، حقوق البشر کے لئے سم قاتل قراردے رہے ہیں، اور اس کی تردید میں قلم اور زبان سے احتجاج بھی درج کرچکے ہیں لیکن یہ خوش گوار آ وازیں تاحال نقا ر خانے میں دب کر رہ گئی ہیں ۔ میڈیا اس مضبوط صدائے ضمیر اور دیش بھگتی کی د لیل کو اُجاگر کر نے سے بوجوہ گریزاں ہے کیونکہ اس نے اپنے فرض منصبی کو مکمل فراموش کرکے پریواری سیاست اور بزنس ہاوسز کی پروردہ ایڈور ٹائز نگ ایجنسیوں کا چولہ پہن رکھا ہے ۔ ابھی پچھلے دنوں مغربی بنگال کے آ سنسول میں کو رام نو می کے موقع پر منظم طریقے پر مسلم کش فسادات کرائے گئے ، اخبارات کی رپورٹنگ اور عینی شاہدین کے بیانات سے ظاہروباہر ہوتا ہے کہ رام نو می کے جلوس میں شامل افراد نے اقلیتی فرقے پر حملے کئے جو فساد کا باعث بنے۔ان فسادات میں تادم تحریر چار افراد موت کی نیند سلائے گئے ۔ا ن مسلم کش فسادات میں امام و خطیب نوری مسجد امداد الرشید کو اپنے جواں سال بیٹے سے ہاتھ دھونا پڑا ہے ۔ امام صاحب کا بیان ہے کہ کہ جب میں باہر آیا تو فسا د برپا تھا ، اسی دوران دسویں جماعت کا طالب علم میرا بیٹا امتحان کے بعد گھر آرہا تھا کہ بلوائیوں نے اُسے اُٹھا لیا ، میں نے اُسی وقت پولیس ا سٹیشن جاکر شکایت درج کی لیکن وہاں سے کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ اس کے اگلے دن مولانا کو اپنے بیٹے کی لاش سرراہ ملی ، امام صاحب کے بیٹے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ظاہر ہوا تھا کہ اس معصوم کو پیٹ پیٹ کر مارا گیا تھا۔ قتل ِناحق کے اس صدمہ خیز واقعہ پر علاقے میں زبردست کشیدگی پھیل گئی لیکن امام صاحب نے فوراً ہی نماز جنازہ میں شامل ہزاروں افراد سے اپنے خطاب میں کہا : ’’میں اپنا بیٹا کھو چکاہوں اور جس تکلیف اور درد سے گذر رہا ہوں میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور باپ بھی اسی درد سے گذر جائے، اس لئے میں اپیل کرتا ہوں کرتا ہوں کہ امن قائم رکھا جائے ۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ امام صاحب نے مقامی مسلم برادری سے صاف کہا کہ اگر کسی بھی شخص نے میرے بیٹے کی ہلاکت کا بدلہ لیا یا کوئی اورانتقام گیرانہ حرکت کی تو میں یہ شہر چھوڑ کر چلے جاؤں گا ۔ اس ہوش مندانہ وانسان دوستانہ جذبے کو سراہا جاناچاہیے اور موصوف کا صبر وثبات بھی قابل ستائش ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست بھی صبر کی وعظ خوانی پر اکتفا کرے یا اس کا کام یہ ہے کہ قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے قاتل فرد یا گروہ کو از روئے قانون کیفر کردار تک پہنچائے ؟ اگر سرکاری مشنری نے اپنافرض نہ نبھایا تو امام صاحب کا صبر وضبط بے معنی ثابت ہوگا اور پھر آدم خور فسادیوں کے ہاتھ آنے والے ماہ وسال میں بھی اسی حیوانی طرز عمل کی توقع کی جانی چاہیے۔اس لئے مجرم کو محض معاف کر نے اور صبر کی تلقین سے آنے والے خطرات کو نہیںروکا جاسکتا ہے ، کیوں کہ خون کے پیاسے لوگوں کامائنڈ سیٹ ظلم وزیادتی کے اینٹ گارے پر اُٹھتا ہے اوراس ذہنی اپج کا یہ نتیجہ ہے جس کی بناپرحکومتی طاقت کی پشت پناہی میں ایک متشدد طبقہ قتل انسان اور قتل انسانیت دونوں کو پاپ نہیں بلکہ پنیہ کا کام سمجھتی ہے ۔ اس مائنڈ سیٹ نے سترسال قبل گاندھی جی کو گولی مارکر ہتھیا کر لی مگر اسے بھی پنیہ اور دھرم کا کام سمجھ کر انجام دیا ۔ انہوں نے کھٹوعہ جموں میں آصفہ نامی ایک آٹھ سالہ بچی کو انہی حالات میں موت کے منہ میں دھکیلا جن حالات دلی میں دامنی نامی ایک بالغ لڑکی کی عزت ریزی اور جسمانی تعذیب سے اس کا کام تمام کیا گیا۔ دامنی کاجرم عام نوعیت کی مجرمانہ حرکت تھی مگر آصفہ کو اس ناقابل بیان صدمے سے گزارنے کے پیچھے ایک سیاسی ہدف یہ تھا کہ اس کارروائی سے عبرت پکڑ کر پہلے کھٹوعہ اور جموں سے گوجر بکروال اور دوسری مسلم برادریاں نومبر ۴۷ء کی طرح جان بچانے کی خاطر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں۔ اسی طرح اخبارات کے مطابق بنگال میںرام نومی کے موقعے پر آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے جلوس نکال کر اقلیتی مسلم فرقے کو مشتعل کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی اور پولیس پر بھی زوردار حملے کئے ۔ ان حالات و واقعات سے یہ قیاس لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اگلے سال کوئی انتخابی معجزہ رونما ہو ا کہ بھارت ورش بھاجپا مُکت ہو تو اس بات کا خدشہ بڑھتا رہے گاکہ مستقبل قریب میں یہاں اپنے سیاسی بل بوتے پر ہندوتوا قوتیں اقلیتوں خصو صاً مسلم اقلیت کو مزید برے دنوں اور بھدے حالات کا منتظر رہنا ہوگا ۔ ورنہ اس بات کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ جموں نشین بی جے پی اور ہندو ایکتا منچ ترنگا کے زیر سایہ مانگ کررہی ہے کہ آصفہ کی عصمت دری اور دل دہلانے والے قتل میں ملوث درندوں کو رہا کیا جائے،اس کیس کو سی بی آئی کے ہاتھ دیا جائے؟ ملزم کے حق میں ریلیاں نکالنا ، بھوک ہڑتال کرنا ، دھمکیاں دینا اور معاملہ کرائم برانچ سے لے کر سی بی آئی سپرد کر نے کی ڈیمانڈ کرنا ، یہ سب کچھ کیا رام کہانی سناتی ہے ؟اسی تسلسل میں مغربی بنگال اور بہار اور گجرات کے صوبے سورت اور راجستھان میں یکے بعد دیگرے میں فرقہ وانہ فسادات پھوٹ پڑنا ہے بین السطور بتاتا ہے کہ آرایس ایس ایک زہرناک منصوبے کے تحت اور ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ ۲۰۱۹ء کے ملکی انتخابات کو ہندومسلم کارڈ کو خون آشام شکل دے کر جیتنے کا من بنا چکی ہے۔ یہ ناگفتہ بہ طریقِ سیاست پچھلی سات دہائیوں سے صیہونیوں نے فلسطینی عوام کے ساتھ ہر محاذ پر آزمایا اور اپنے طاقت کا دبدبہ اس طرح قائم و دائم رکھا کہ آج سعودی ولی ٔ عہد شہزادہ محمد بن سلمان( جو مملکت کے کاروبارِ سیاست و حکومت کے تمام اختیارات اپنی ذات میں مرکوز کر چکاہے ) یہ پٹی پڑھنے لگاہے کہ اسرائیل کو’’اپنی زمین ‘‘( جو اصل میں فلسطینیوں کی ملکیت ہے ) پر حق حاصل ہے۔ پریوار یہی دبدبہ دباؤ دھونس ، خون ریزیوں اور تباہ کارانہ حربوں سے قائم کر کے تمام ملکی اقلیتوں بالخصو ص مسلم اقلیت کو روند ڈالنے کے لئے پر تول رہاہے۔ اس گھمبیر صورت حال میں بحیثیت ایک قوم و ملت مسلمانوں کے لئے خوش کن پیغامِ حیات یہ ہے کہ عام ہندو آر ایس ایس کی سخت گیریت اور فرقہ واریت کاحامی نہیں بلکہ وہ آج بھی جمہوریت ، اجتماعیت اور انسانیت اور گنگا جمنی تہذیب کا پیروکار ہی نہیں ہے بلکہ اس کا دلداہ بھی ہے۔ پھر بھی مسلم اقلیت کو حالات کی پیش بینی کرکے اپنی انفرادی اور جتماعی مدافعت کے پہلو بہ پہلو اپنی سیاسی وحدت ِفکر لئے خود اعتماد ی اور خد ا اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور ہر حال میں امن اور یکجہتی کو اپنی اولین اولین ترجیح بنانا ہو گا۔
[email protected] con 9419514537