پایۂ تکمیل کا رِخلقت آپ پہنچاتا ہے تُو
جنسِ نازک کو ہوا میں رزق دے جاتا ہے تُو
خُشک و تر میں جو بھی ہیں آباد جنسِ بیکراں
خون کی نعمت سے اعضاء انکے گرماتا ہے تُو
جب کبھی بحرِ تخئیل میں گہہِ آئے خیال
خامۂ عُشاقؔ کو پھر آپ اُکساتا ہے تُو
سوچتا ہوں سوچ کر بھی سوچ میں پاتا نہیں
کس طرح سے مہر وماہ کو روشنی دے جاتا ہے تُو
تُجھ سے قائم ہے جہانِ زیست کا یہ ہست وبُود
ڈوبنے والوں کو ساحل آپ دکھلاتا ہے تُو
توڑ دے مولیٰ مری خوابیدہ فطرت کا جُمود
کِس لئے آوارہ سوچوں کو مری بھرماتا ہے تُو
مؤجزن ہیں سینۂ صر صر میں میری خواہشات
ذہنِ کمتر کو مرے آزار کیوں دے جاتا ہے تُو
جب مئے توحید سے ملتا ہے رندوں کو سکون
عکس اپنا آب کھارا میں دکھا جاتا ہے تُو
بُجھنے والی ہے مرے داتا مری شمعِ حیات
دیکھنا باقی سعادت کب بھلا لاتا ہے تُو
ہے نہ لائقِ ستائش عُشاقؔ کا مُطلق کلام
پھر بھی کچھ توصیف میں مجھ سے کہلواتا ہے تو
عُشاقؔ کشتواڑی
حال جموں،،موبائل نمبر؛9697524469