یہ عالم اِک تماشہ ہے
نظامِ خُشک و تر قائم ہے تیری نظر ثانی سے
نپٹ لیتا ہے تو ہی بس جہانِ بیکرانی سے
فہم میں بات آتی ہے یہ عالم دارِ فانی ہے
جو دیدے ہے ابھی ہر شے ہے تیری مہربانی سے
تیرے مجذوب کہتے ہیں یہ عالم اِک تماشا ہے
کوئی پیری میں ہے شاداں کوئی نالاں جوانی سے
مُسرت خیمہ زن گا ہ ہے،گہے ماتم معاصر میں
کرشمے سب یہ مولیٰ ہیں تیرے ہی کارِثانی سے
فضائے کیف و راحت سے چمن مستور ہے لیکن
بشر پھر بھی نہیں راضی تری اِس باغبانی سے
برائے بالاپن اِس نے کیا ایجاد ’’ایٹم‘‘ تک
خود ہی کھلواڑ کر بیٹھا یہ اپنی زندگانی سے
بلآخر ڈوب جاتا ہے نویدِصبح کا اختر
طلوع ہوتا ہے پھر سورج زمینِ آسمانی سے
شمیمِ زندگی پھر سے اَثر اپنا دکھاتی ہے
معبد گونج اُٹھتے ہیں صدائے لنترانی سے
عروسِ نو، کی صورت پھر پلنگ ہستی کا سجتا ہے
چھڑکتنی پھر سے نرگسؔ ہے عطر کیا عطردانی ہے
یہی ہے مختصر قصہ نویدِ صبح کا عُشاقؔ
کروں جسکا بیاں آذرؔ میں اپنی شعر خوانی سے
عُشاق ؔکشتواڑی
حال جموں
موبائل نمبر؛9697524469
نظم
خود پرستی کا یہ عالم، دل نہیں پتھر ہوئے
دوستی کے نام پر سب، سود کے دفتر ہوئے
مسکراہٹ میں ہے دھوکا، آنکھ میں مکر و فریب
لفظ میٹھے زہر جیسے، جذبے سب منکر ہوئے
رُوح بکتی ہے یہاں پر، جِسم ہے معیارِ شوق
پیار کی تعریف بدلی، خواب بھی بے سر ہوئے
جو کبھی سچ بولتا تھا، اب وہ تنہا رہ گیا
جھوٹ والے تاج لے کر، اہلِ زر رہبر ہوئے
آدمی سے آدمی کا، فاصلہ بڑھتا گیا
مطلبوں کی دوڑ میں ہم، کس قدر کمتر ہوئے
سبدرؔ اب انسانیت بھی، اک کہانی بن گئی
رحم دل سویا ہوا ہے، خواب در بستر ہوئے
سبدر شبیر
اوٹو اہربل کولگام
موبائل نمبر؛9797008660
[email protected]