درآمد شدہ یہ گوشت ؟
ڈھاکر سِتم ہائے گِراں بے حساب کا
لیتے ہیں فرد لُطف کچھ رَستہؔ کبابؔ کا
مُفلس کو کبھی دال تک ہوتی نہیں نصیب
زردار مزہ لیتا ہے ہر شے کے باب کا
اس عمل سے ہی گوشت کے پھر در ہوئے گراں
خوراک اب یہ بن گیا حصہ نواب کا
قدرت نے ہی اجناس کو یہ وصف دیا ہے
حصہ ہیں یہی روز مرہ زندگی کے باب کا
انمول شے ہے دال اور سبزی حیات میں
ہوتا نہ اثر اِن پہ ہے موسم خراب کا
آتا ہے ’’پیک‘‘ گوشت کچھ بازارِ عام میں
کس کو پتہ مُرغے کا ہے یا پھر مردہ عُقاب کا
حلال اور حرام کے ضوابط ہیں مقرر
ہر قوم کرے ہے اس پہ عمل اپنے حساب کا
بدلے ہوئے ہیں آجکل تہذیب کے تیور
رکھا ہے نام گنگاؔ جل اب مُوزی شراب کا
کچھ تو تمیز کیجئے حلال اور حرام میں
بعد از وفات ہے سامنا یوم الحساب کا
اِس دورِ بدقماش میں عُشاقؔ سوچئے
درآمدہ شدہ یہ گوشت کیا ہوتا حساب کا
جگدیش راج عُشاق ؔکشتواڑی
حال جموں،موبائل نمبر؛9697524469
راہِ اُلفت
جب بھی ذکرِ حُسن و حیا کا ہوتا ہے
زباں پہ میرے نام آپ ہی کا ہوتا ہے
چلمن سے چھپ کر دیکھنا بھی ایک اَدا
اَبر سے مانو کوئی ماہتاب نکلتا ہے
تِلسمی نظروں کا تاب کوئی سہے کیسے
بے وجہ برق کے کوندنے کا گماں ہوتا ہے
سخن ور بھی پناہ مانگے ہے حُسن گوئی سے
لبوں سے میرے معشوق کے موتی برستا ہے
آرزو آپ کی ہوئی ہے اس طرح دل میں
طفل جیسے کوئی آتش پر مچلتا ہے
آغوش میں آپ کی پناہ کی حسرت لئے
گزر جائے گی یہ زندگی ایسا لگتا ہے
اِن راہوں سے جب بھی کوئی گزرا دانشؔ
کوئی میرؔ، غالبؔ تو کوئی سوداؔ کہلاتا ہے
افتخار دانش
کشن گنج بہار
سکُوت
ہر لمحہ خاموش ہے ، ہر پل اُداس ہے
گھینری ہر رات کا اندھیر ا ہِراس ہے
دھُوپ دُھندلی ہے، دن ترس رہے ہیں
ہر گھڑی رہتی ہے دل میں بھَڑاس ہے
وہ مسیحا کل کے ، وہ راستوں کے رہبر
بند کمروںمیں بیٹھے ، اب تحریرِ قرِ طاس ہے
ہاں میں ہاں مِلانے کا عجب چلن ہے
روِاجوں پر پڑا ہے فیشن کا لباس ہے
عالم جکڑ چکا ہے تنہاؔ یہ کس الم میں
ہر شخص کے نس نس میں بسا اَلخناَّس ہے
قاضی عبدالرشید تنہاؔ
روز لین کالونی چھانہ پورہ سرینگر،کشمیر
موبائل نمبر؛7006194749
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے؟
فلسفۂ رفت و بود ہے کیا
کوئی کیا خاک سمجھے بھلا
جو یہ سمجھے وہ خرد پیما ہے
یاالٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی جاتا ہے بادہ خانے کو
کوئی ترسے ہے دانے دانے کو
کوئی بے پیرہن پریشاں ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی دو گام ساتھ نہیں چلتا
کوئی تاعمر ہم قدم رہتا
کوئی اپنوں میںبھی پرایاہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی رکھتا ہے خواب آنکھوں میں
سوالات لا جواب آنکھوں میں
کوئی آنکھوں کو ہی ترستا ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی دیتا ہے درد کے نالے
کوئی گاتا ہے طرب کے نغمے
کسی کا صبر ہی اثاثہ ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی شاداں ہے زیست جیتا ہے
کوئی اپنے ہی اشک پیتا ہے
کوئی پُر تپش مثل صحرا ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی شاکر ہے جو ملا اسکو
کوئی چاہے کہ دے خدا اسکو
کوئی عقبیٰ کی فکر رکھتا ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی دھوکے فریب سے عاجز
کوئی اپنے نصیب سے عاجز
کوئی عاجز نہیں تو تنہا ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی اک نظرکو ترستا ہے
کوئی ٹھکراکے دور جاتا ہے
کوئی پاس رکھتا ہے پاس رہتا ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
کوئی نازاں ہے سب ملا اسکو
کوئی نالاں ہے کب ملا اسکو
کوئی وعدے پہ جان دیتا ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
یاں کسی کو بھی سب نہیںملتا
سب ملے گر تو رب نہیںملتا
منیبؔ مرزاقلم کو رکھتا ہے
یا الٰہی یہ کیا تماشا ہے
مرزاارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9906486481