نظمِ معرّا
صبحِ نَو کی کرن پُھوٹی
سارا عالم جگمگا اُٹھا
اِک طرفہ تماشا ہوا
نئے مِہر و مَہ اُبھرے اور نکلا ستاروں کا جُھرمٹ
کہکشاں جھوم اُٹھی اور شامِ غریباں چمکی
گُلشن میں ہر طرح کے پُھول کِھلے
اور غنچوں کا تبسم کہتا ہے
کہ رونقِ بزمِ وفا دیکھ
سچ تو یہ ہے کہ اے مرے ہمدم
اُفق کے نُور نے بخشا ہے چہروں کی شفق کو نِکھار
یہاں آکر جو ملے ہیں
تری سرکار میں ایک ہوئے
صحبتِ یار میں کتنے ہی نیک ہوئے
بجلی کی عنایت سے قفس ٹوٹ گئے
اور پنچھیوں نے ہوش سنبھالا ہے ڈالیوں پر
بادِ صَر صَر جو آئی پیامی بن کر
تو زندگی کی لہر دوڑی
قُمریوں نے ’’ھُواللہ‘‘ کے گیت گائے
بلبلوں نے ’’ہری اوم‘‘ کی صدائیں دیں
فطرت کے بکھیرے روح پرور نغمے
’’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز‘‘
کیوں کوئی کسی کا دامن تھامے
کسی کی ہمت ہے کسی کا گریباں پھاڑے؟
ایک ہی گھاٹ پہ اُترے ہیں خورد و کلاں
’’نہ کوئی بندہ رہا ہے نہ کوئی بندہ نواز‘‘
بادِ سموم کے تھپیڑوں کو شکست ملی
دیوِ اِستبداد کا لنگر بھی اُکھڑ گیا
پھر امان ملی اور
رُخِ جاناں کے درشن ہوئے
اور دِلوں کو راحت ملی
موقع یہ غنیمت ہے کہ سخنور بھی ملے ہیں
یادوں کے سہارے بھی جئے ہیں
کشورِ ہند کی راتیں ہوں
کشورِ دل کی باتیں ہوں
یہی وہ اثاثہ ہے جو توڑتا ہے دِلوں کا جمود
اور جوڑتا ہے شکستہ آبگینوں کو
ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل کشمیر
موبائل نمبر؛9622729111
معصوم ادائیں
میرے دل کا حال نہ پوچھو
نہ سن سکو گے نہ کہہ سکوں گی
وہ رات ڈھل چکی ہے
احساس بھی مر چکا ہے
بج رہی ہیں دل کی دھڑکنیں
صرف ادھورے خواب ہیں
اوریہ میرےراز ہیں
درد سے پہلو بدل چکے ہیں
میری شاخ کو آگ لگا چکے ہیں
بھڑکتے شعلے دِکھ رہے ہیں
میں سانس لیتے گھبراتی ہوں
سبق جینےکا مگر دیتی ہوں
وفا ، اخلاق اور دعا سکھاتی ہوں
صبح سے شام یہی پیام دیتی ہوں
میرے فیملی کا پرانا گلابؔ ہے
اب وہ شیطان نامہ لایاہے
سنو ! یوضاؔ لہو کا چراغ جلائی ہے
راہ ِحق میں نیا قدم اُٹھائی ہے
یوضاؔ وسیم بٹ
کشتواڑ، جموں