اے! قاتلِ جان
ہر طرف جب قتل کا بازار گرم ہو
کسی کو بھی معلوم نہ ہو کس کا جُرم ہو
ہے روز یہاں حشر بپا قتلِ عام کا
کہیں جسم کے ٹکڑے ہیں کہیں سر بھی قلم ہو
کتنے ہی گھروں کو اُجاڑ دیا ہے تونے
اے قاتلِ جاں تجھ کو ذرا بھی نہ شرم ہو
ہر آنکھ میں شہتیر ہے ہر داڑھی میں تِنکا
کسے خبر کہ قاتلِ جاں ہم ہیں کہ تم ہو
ہے قتل اِک اِنسان کا گویا قتلِ اِنسانیت
کوئی دن بھی نہیں ایسا جب نہ رنج و الم ہو
اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید ہے فرمانِ خُدا گر
اے ظالم تو بتا دے پھر کس بات کا زعم ہو
جس نے بھی گلہ گھونٹ دیا اِنسانیت کا مشتاقؔ
اُس کا نہ کوئی دین ہو، نہ کوئی دھرم ہو
خوشنویس میر مشتاق
ایسو اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛9682642163
نظم
ہیرت کے دیئے اور پردیس کی رات
آج پھر ہیرت آئی ہے،
گھروں میں دیئے جل رہے ہیں،
گھنٹیوں کی آوازیں
ہوا کے سنگ بہہ رہی ہیں،
مندروں میں گونجتی پرارتھنا
وادی کے سکوت کو توڑ رہی ہے۔
مگر…کہاں ہو تم؟
جن ہاتھوں نے کبھی ،یہ دیئے جلائے تھے،
جن ہونٹوں نے یہ منتر گنگنائے تھے،
جن قدموں نے،برفیلے راستوں پر
شیو کی جے پکارا تھا،
وہ آج کہاں ہیں؟
دُورر ررررررر، کہیں دور،
کسی اجنبی شہر کی
اجنبی گلیوں میں،
جہاں نہ وہ چنار ہیں،نہ جہلم کے کنارے،
نہ کوہساروں کی چاندنی،
نہ زعفران کی خوشبو۔
ہیرت کی رات خوشیوں کی رات ہے،
مگر کچھ دیئے، اُداس بھی ہیں،
کچھ آنکھیں ،نم بھی ہیں،
وطن کی مٹی
آج بھی انہیں پکارتی ہے،
کب آؤ گے؟ کب آؤ گے
اب تو لوٹ بھی آؤ ….!!!
شوق آخون ،سرینگر ، کشمیر